کتاب: رُشدشمارہ 08 - صفحہ 21
طور آپ کسی سلسلے کے معاصر پیر طریقت کے ساتھ مراقبہ میں بیٹھ جائیں اور اس کے بعد کسی ہندو جوگی کی باتیں سنیں، اور جوگی تو خیر بہت آگے ہو گا، آپ ایک ہندو نوجوان سندیپ مہیش واری کے بیانات ہی سن لیں جو کہ آپ کو یو ٹیوب پر مل جائیں گے تو آپ کو اندازہ ہو گا، کہ مراقبے کی لذات، کیفیات اور ثمرات جو ان کے ہاں ہیں، وہ یہاں کہاں؟ [1] لیکن حقیقت یہ ہے کہ تہجد کی نماز میں قرآن مجید کی تلاوت اور لمبے سجود میں لمبی دعاؤں میں جو ایمانی کیفیات اور اثرات ہیں، وہ مراقبہ میں کہاں؟ اور اس پر قسم کھائی جا سکتی ہے کہ ہندومت اور بدھ مت کے طریقوں سے وہی متاثر ہو گا جو اسلام کے طریقوں سے محروم رہا۔ ایک دوست نے بائیبل پڑھی تو بہت متاثر ہوئے اور کہنے لگے کہ بائیبل کا کورس کرنے کا ارادہ ہے، آپ کا کیا مشورہ ہے؟ میں نے کہا کہ قرآن مجید پڑھا ہے؟ کہنے لگے کہ نہیں! میں نے کہا کہ پہلے قرآن مجید اچھی طرح پڑھ لیں۔ اور اگر آپ نے قرآن مجید پڑھا ہی نہیں تو آپ کو بائیبل ہی سب کچھ معلوم ہو گی۔ تو ہندو جوگیوں اور بدھ بھکشوؤں کا تو یہ عذر ہے کہ وہ اصلاح نفس کے اسلام کے طریقوں سے واقف نہیں ہیں لیکن مسلمان تو واقف ہیں اور ان کو پریکٹس میں نہیں لاتے اور دوسرے طریقوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ اور اگر آپ کو زندگی میں ایک بار بھی تہجد میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو مکمل قرآن مجید سنانے کا موقع نہیں ملا تو آپ مراقبے کی کیفیات کو بہت بڑا جانیں گے کہ جس نے دیسی گھی کی لذت نہ لی ہو تو اسے تو ڈالڈا ہی میں سب ذائقے معلوم ہوں گے۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ جس طرح عام افراد قرآن مجید سے احوال پیدا کرنے سے محروم ہیں، اسی طرح صوفیاء بھی قرآن مجید سے احوال پیدا کرنے میں اتنے ہی محروم ہیں۔ اگر صوفیاء کو قرآن مجید سے احوال پیدا ہوتے تو انہیں مراقبے، تصور شیخ، ذکر جہری، پاس انفاس، سماع، رقص اور وجد وغیرہ کی طرف جانے کی کیا ضرورت تھی؟ اہل تصوف کو یہ ماننا پڑے گا کہ وہ قرآن مجید سے وہ تعلق قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں جیسا کہ ہونا چاہیے تھا۔ اور اس کا حل اب یہی ہے کہ اصحاب قرآن اور اہل قرآن کی صحبت میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارا جائے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہیں کہ بندہ سجدے کی حالت میں جتنا اپنے رب کے قریب ہوتا ہے، اتنا کسی اور حالت میں نہیں ہوتا اور ہم مراقبے کی حالت میں تقرب کی منازل طے کر رہے ہوں تو اس سے بڑی محرومی اور کیا
[1] آجکل بابا رام دیو اور سری سری راوی شنکر مراقبہ کروانے کےحوالے سے کافی معروف ہندو گرو ہیں۔ دونوں کے ایسے پیروکار لاکھوں میں ہیں کہ جنہیں مراقبہ کی تعلیم دی جاتی ہے۔ جمعیت علمائے ہند کے اترپردیش میں 2009ء کے سالانہ اجلاس میں بابا رام دیو کی مراقبہ، پاس انفاس اور لطائف پر تقریر سننے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں یہ طریقے ہندو مت سے آئے ہیں۔ خیر یہ دونوں گرو تو پھر میڈیا کے لوگ ہیں جبکہ جنگلوں، پہاڑوں اور دریاؤں کے کنارے سنیاسی اور بھکشو تو اس کے علاوہ ہیں کہ جن کے عجیب وغریب مکاشفات بھی منقول ہیں۔