کتاب: رُشدشمارہ 08 - صفحہ 20
کے ساتھ مشارطہ اور محاسبہ دو اور اصطلاحات بھی نقل کی ہیں۔ ان سے پہلے امام ابن جوزی رحمہ اللہ نے بھی یہ اصطلاحات بیان کی ہیں۔ [1] مشارطہ، شرط سے باب مفاعلہ ہے ۔ صبح اٹھ کر اپنے نفس کو یہ تلقین کرے کہ آج کے دن میں یہ خیر کا کام کرنا ہے اور اس شر سے بچنا ہے تو یہ مشارطہ ہے۔ اور مراقبہ سے مراد یہ ہے کہ اپنے نفس کو کی گئی اس تلقین کی دن بھر نگہداشت اور نگرانی کرے۔ محاسبہ یہ ہے کہ رات کو یہ معلوم کرنے کے لیے بیٹھے کہ جس خیر کے حصول اور شر سے اجتناب کے مقصد سے صبح مشارطہ کیا تھا، وہ مقصد حاصل ہوا یا نہیں۔ [2]حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے صوفیاء کے مراقبے کو سنت کے قریب کر دیا ہے۔ مراقبے کے اس تصور میں اختلاف نہیں ہے۔ اندر کا سکون ایک دوست نے مذکورہ بالا تحریر پر سوال کیا کہ اگر جم جوائن کرنا جائز ہے تو مراقبہ کیوں نہیں ہو سکتا۔ اس کے جواب میں ہمیں یہی عرض کرنا ہے کہ فریقین عموماً ایک دوسرے کی تحریر غور سے پڑھتے نہیں اور سرسری طور نظر ڈال کر ایسے اعتراض وارد کر دیتے ہیں، جو بنتے نہیں ہیں۔ ہمیں آپ کے مراقبہ کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے، روزانہ کریں، صبح وشام کریں۔ ہم بار بار یہ نکتہ پیش کر رہے ہیں کہ ایک ذہن ہے کہ مراقبہ کو ذہنی سکون کے لیے اختیار کیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اور دوسرا ذہن ہے کہ مراقبہ تقرب الی اللہ کے ذرائع میں سے ہے، تو بہت حرج ہے۔ اگر آپ یوگا اپنی صحت کے لیے کریں گے تو کو ئی حرج نہیں لیکن اگر آپ یہ کہیں گے کہ میں یوگا اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے کر رہا ہوں، تو بہت حرج ہے۔ اسی طرح آپ اپنی جسمانی صحت کے لیے جم جوائن کریں تو کوئی حرج نہیں لیکن آپ اس لیے جم جوائن کریں کہ یہ تقرب الی اللہ کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے، تو بہت حرج ہے۔ تقرب الی اللہ کے ذرائع ہمارے دین نے طے کر دیے ہیں، اور وہ ایمان، نماز، قرآن مجید، سجدہ، دعا، صدقہ، صلہ رحمی اور اخلاق وغیرہ ہیں۔ ان کے علاوہ کسی ذریعے کو اللہ کا تقرب حاصل کرنے کا ذریعہ بنانا درست نہیں ہے۔ اور اگر آپ کو باطنی اطمینان اور ذہنی سکون کے لیے مراقبہ کرنا ہی ہے، تو پھر صوفیاء سے زیادہ بہتر ہندو جوگی اور بدھ بھکشو ہیں کہ جن کا یہ خاص میدان ہے۔ اگر آپ مراقبے کے تصور پر تصوف ، ہندومت اور بدھ مت کا تقابلی مطالعہ کریں تو احساس پیدا ہو گا کہ ہمارے صوفیاء اس سائنس میں غیر مسلموں سے کافی پیچھے ہیں۔ مثال کے
[1] ابن جوزی، عبد الرحمن علامہ، منہاج القاصدین، تلخیص ابن قدامہ مقدسی احمد بن محمد بن عبد الرحمن، مترجم محمد سلیمان کیلانی، ص 523۔524، ادارہ معارف اسلامی، لاہور، 1985 [2] شریعت وطریقت: ص 278