کتاب: رُشدشمارہ 08 - صفحہ 19
مراقبہ کا مقام نماز ہے۔ اور نماز میں بھی خاص طور تہجد کی نماز جبکہ مکمل خاموشی ہوتی ہے کیونکہ فرض نمازوں میں کامل توجہ کی کیفیت حاصل ہونا مشکل ہے۔ فرض نمازوں میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بچے کے رونے کی آواز سن کر نماز ہلکی کر دیتے تھے۔ مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ (متوفیٰ 1943ء) نے لکھا ہے کہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ فرائض میں استغراق مطلوب نہیں ہے۔ [1] مراقبے کا صحیح طریقہ یہی ہے کہ انسان تہجد کی نماز میں قرآن مجید کی تلاوت کرے اور تلاوت، قیام، رکوع، سجود اور اِن میں پڑھی جانے والی تسبیحات میں تبتل اور انقطاع یعنی دنیا و مافیہا سے کٹ جانےکی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ اگر انقطاع حاصل نہ ہو رہی ہو تو آنکھیں بھی بند کی جا سکتی ہیں جیسا کہ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ نماز میں خشوع وخضوع کے حصول لیے آنکھیں بند کرنا جائز ہے[2] کیونکہ خشوع وخضوع کا حصول نماز کے فرائض میں شامل ہے لیکن مستحب اور پسندیدہ امر یہی ہے کہ نماز میں آنکھیں کھولے رکھے۔ توجہ الی اللہ کا پہلا قدم دنیا و مافیہا سے انقطاع ہے۔ دنیا و ما فیہا سے انقطاع ہو گا تو توجہ کے حصول کا آغاز ہو گا۔ انقطاع کے بعد توجہ میں بہتری کے لیے قرآن مجید کی آیات اور تسبیحات کے معنی ومفہوم پر غور کرے۔ اگر انقطاع نہیں ہو گا تو نماز میں توجہ بھی قائم نہ ہو گی۔ ایک شبہ یہ ہو سکتا ہے کہ مراقبے میں تو کسی ایک تصور پر غور کیا جاتا ہے تا کہ ارتکاز ذہنی (concentration) حاصل ہو تو قرآن مجید کی آیات کے معانی ومفاہیم میں غور کرنے کی صورت میں سالک متنوع مضامین پر غور کرے گا تو مرکزیت کیسے قائم ہو گی؟ ذہن تو اِدھر اُدھر منتقل ہوتا رہے گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید اللہ کی صفت ہے۔ اور صفت الہی ہونے کے اعتبار سے وہ ایک ہے، اگرچہ مضامین کے اعتبار سے تنوع ہے۔ قرآن مجید میں غور وفکر ایک اعتبار سے صفت کلام میں غور کرنا ہے۔ اس دنیا میں اللہ کی ذات کے تعارف کا سب سے بڑا ذریعہ اس کی صفات ہی ہیں کہ جسے ہم توحید اسماءوصفات کا نام دیتے ہیں اور اس کے قرب کا ذریعہ بھی اس کی صفات ہی ہیں۔ اور ان جمیع صفات میں اللہ اور انسان کے مابین تعلق قائم کرنے کے لیے جو اہم ترین صفت ہے، وہ صفت کلام ہے یعنی قرآن مجید۔ پس تہجد کی نماز میں لمبے قیام کے ساتھ قرآن مجید کی آیات میں غور وفکر ہی مراقبہ کی بہترین صورت ہے۔ مشارطہ، مراقبہ اور محاسبہ مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ (متوفیٰ 1943ء) نے مراقبہ نماز کا اہتمام سے ذکر کیا ہے۔ انہوں نے مراقبہ
[1] کیلانی، عبد الرحمن، مولانا، شریعت وطریقت: ص 314، مکتبۃ السلام، وسن پورہ، لاہور، طبع ہفتم، 2006ء [2] ابن قيم الجوزية، محمد بن أبي بكر، زاد المعاد في هدي خير العباد: 1/285، مؤسسة الرسالة، بيروت، الطبعة السابعة والعشرون، 1994م