کتاب: رُشدشمارہ 08 - صفحہ 18
اِلَيْهِ تَبْتِيْلًا﴾ [1] ”یقیناً رات کا قیام نفس کو کچلنے میں سب سے زیادہ معاون اور بات کہنے میں سب سے زیادہ سیدھا ہے۔ بے شک دن میں آپ کے بہت سے کام ہیں۔(پس رات کے قیام میں ) آپ اپنے رب کے نام کا ذکر کریں اور سب کچھ سے کٹ کر صرف اسی کے ہو رہیں۔“ امام ابن قیم رحمہ اللہ ” تَبَتَّلْ “ کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: قُلْتُ: التَّبَتُّلُ يَجْمَعُ أَمْرَيْنِ اتِّصَالًا وَانْفِصَالًا. لَا يَصِحُّ إِلَّا بِهِمَا. فَالِانْفِصَالُ: انْقِطَاعُ قَلْبِهِ عَنْ حُظُوظِ النَّفْسِ الْمُزَاحِمَةِ لِمُرَادِ الرَّبِّ مِنْهُ. وَعَنِ الْتِفَاتِ قَلْبِهِ إِلَى مَا سِوَى اللّٰہِ ، خَوْفًا مِنْهُ، أَوْ رَغْبَةً فِيهِ، أَوْ مُبَالَاةً بِهِ، أَوْ فِكْرًا فِيهِ، بِحَيْثُ يُشْغَلُ قَلْبُهُ عَنِ اللّٰہِ . وَالِاتِّصَالُ: لَا يَصِحُّ إِلَّا بَعْدَ هَذَا الِانْفِصَالِ. وَهُوَ اتِّصَالُ الْقَلْبِ بِاللّٰہِ ، وَإِقْبَالُهُ عَلَيْهِ، وَإِقَامَةُ وَجْهِهِ لَهُ، حُبًّا وَخَوْفًا وَرَجَاءً، وَإِنَابَةً وَتَوَكُّلًا. [2] ”میری رائے میں ’’تبتل‘‘ میں دو چیزیں شامل ہیں۔ ان میں سے ایک انقطاع (detachment) ہے اور دوسرا اتصال (attachment)۔ ان دونوں کے بغیر ’’تبتل‘‘ ممکن نہیں ہے۔ انقطاع سے مراد یہ ہے کہ سالک اور عابد کا دل اپنے رب کی مراد تک پہنچنے میں حائل ہونے والے نفس سے اس طرح کٹ جائے کہ اس کا دل اللہ کے ماسوا کی طرف مشغول نہ ہو اور اللہ کے علاوہ کی طرف اس کے دل کی توجہ بھی ختم ہو جائے، چاہے اللہ کے غیر میں یہ توجہ کسی خوف کے سبب سے ہو یا رغبت کی قبیل سے ہو، پرواہ کی غرض سے ہو یا غور فکر کی وجہ سے ہو۔ اور اتصال اُسی وقت ممکن ہے جبکہ پہلے انقطاع ہو۔ اور اتصال سے مراد دل کو اللہ کی طرف لگانا، اپنے دل اور چہرے کو اس کی طرف متوجہ کرنا، اس کی محبت، اس کے خوف، اس سے امید، اس کی طرف رجوع اور اس پر توکل کرتے ہوئے۔“ پس ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ”تبتل“ سے مراد دنیا وما فیہا سے ایسا کامل انقطاع (total detachment) ہے جو اللہ کی طرف توجہ کامل(complete devotion) کا سبب بنے گا۔ یہ وہی بات ہے جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ((أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ)) کے الفاظ میں بیان کیا ہے یعنی اللہ کی ایسے عبادت کرو گویا کہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو، یا کم از کم ایسے کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ [3]
[1] سورة المزمل:73: 8۔9 [2] ابن قيم الجوزية، محمد بن أبي بكر، مدارج السالكين بين منازل إياك نعبد وإياك نستعين: 2/32، دار الكتاب العربي، بيروت، الطبعة الثالثة، 1996م [3] البخاري، أبو عبد اللّٰه محمد بن إسماعيل، صحيح البخاري، كِتَابُ الإِيمَانِ بَابُ سُؤَالِ جِبْرِيلَ النَّبِيَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عَنِ الإِيمَانِ: 50، دار السلام للنشر والتوزيع، الرياض، الطبعة الثانية، 1999م