کتاب: رُشدشمارہ 08 - صفحہ 17
نہیں دیکھا۔ لیکن یہ بے سروسامان اپنے خیال باطل میں ہر روز خدائے جل شانہ کو دیکھتے ہیں جبکہ حال یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک مرتبہ دیدار میں بھی علماء قیل وقال کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو خوار کرے، کس قدر جاہل ہیں۔“ [1] ماہرین نفسیات کی ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ اس قسم کے تجربات میں سالک ، حالت مراقبہ میں اپنے ہونے کی شعوری کیفیت عارضی طور کھو دیتا ہے۔ اور یہی ہماری رائے میں اس کیفیت کا صحیح تجزیہ ہے۔ صوفیاء میں عام طور اس کیفیت کو فنا (annihilation) اور سائیکالوجی میں نفسیاتی موت (psychic death) کہہ دیتے ہیں۔ اس بارے جدید علم نفسیات میں شعور کی تبدیل شدہ کیفیات اور حالتوں میں سے خود دگربینی (depersonalization)،وجد (religious ecstasy)، تجربہ بیرون جسم(out of body experience) اور تخلیہ روح (astral projection) کا مطالعہ مفید رہے گا۔ مراقبہ اور ارتکاز ذہنی مراقبہ میں ایک چیز اہم ہے اور وہ حواس ظاہری (five senses) کے تعطل کی مشق کرنا کہ اس سے مقصود یہ ہو کہ عبادت میں توجہ اللہ عزوجل ہی کی طرف مبذول رہے۔ باقی رہے اس کے اوقات یا ہیئت تو یہ درست نہیں ہے۔ مثال کے طور ہیئت کے بارے صوفیاء کا کہنا ہے کہ مراقبہ میں آنکھیں بند ہونی چاہییں۔ ہماری رائے میں اس کا تعلق مراقبے سے نہیں ہونا چاہیے کیونکہ حواس کا تعطل کھلی آنکھوں بھی حاصل ہو جاتا ہے۔ بعض لوگوں کی سوتے میں آنکھیں کھلی ہوتی ہیں ۔ اسی طرح اگر ہم سٹرک پر سفر کر رہے ہوں تو راستے میں سینکڑوں چیزیں دیکھتے ہیں اور جن چیزوں میں ہماری دلچسپی نہیں ہوتی، انہیں دیکھنا یا نہ دیکھنا ہمارے لیے برابر ہوتا ہے۔ پس اصل مقصود توجہ کو مرکوز (concentrate) کرنا ہے نہ کہ آنکھیں بند کرنا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وتابعین یا ائمہ ومحدثین ایسے مراقبہ نہیں کرتے تھے جیسا کہ معاصر صوفیاء کرتے ہیں، لہٰذا تزکیہ نفس کے لیے اس طرح کے مراقبے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ سلف صالحین کا تزکیہ اس قسم کی مشقوں کے بغیر ہوا ہے۔ البتہ صوفیا ءکی بعض باتیں قابل توجہ معلوم ہوتی ہیں جیسا کہ ان کا یہ کہنا ہے کہ اللہ کی طرف کامل توجہ کے لیے حواس ظاہری کو معطل کر دینے کی مشق کرنا۔ اس بنیاد کو سامنے رکھتے ہوئے اگر ہم مراقبے کی بہترین صورت متعین کرنا چاہیں تو وہ تہجد کی نماز ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سورۃ المزمل میں تہجد کی نماز پڑھنے کا حکم دینے کے بعد فرمایا گیا: ﴿ اِنَّ نَاشِئَةَ الَّيْلِ هِيَ اَشَدُّ وَطْاً وَّ اَقْوَمُ قِيْلًا٭ اِنَّ لَكَ فِي النَّهَارِ سَبْحًا طَوِيْلًا٭وَ اذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَ تَبَتَّلْ
[1] ایضاً: ص 316