کتاب: رُشدشمارہ 08 - صفحہ 16
بھی بعض محققین نے کی ہے جیسا کہ حضرت شیخ مجدد الف ثانی رحمہ اللہ (متوفیٰ 1624ھ) کی مثال دی جا سکتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
”عجب کاروبار ہے کہ ان لوگوں میں سے بہت سے اس راہ کے مدعی اس شہود ومشاہدہ پر بھی قناعت نہیں کرتے بلکہ اس شہود کو تنزل خیال کر کے اس جہاں میں رویت بصری کے بھی قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم واجب الوجود جل سلطانہ کی ذات پاک کو دیکھتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ دولت جو ہمارے پیغمبر علیہ الصلاۃ والسلام کو شب معراج میں ایک دفعہ حاصل ہوئی تھی ہم کو ہر روز میسر ہے اور وہ نور جو ان کے دیکھنے میں آتا ہے اس کو صبح کی سفیدی سے تشبیہ دیتے ہیں اور اس نور کو مرتبہ بے کیفی خیال کرتے ہیں، اور مراتب عروج کی نہایت اس نور کے ظہور تک تصور کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سبحانہ اس بات سے جو ظالم کہتے ہیں، بہت بڑا ہے۔ اور نیز حضرت حق جل شانہ کے ساتھ اپنا کلام ومکالمہ کرنا ثابت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے ایسا ایسا فرمایا ہے، کبھی اپنے دشمنوں کے حق میں حضرت عز سبحانہ کی طرف سے کئی کئی قسم کی وعیدیں یعنی بہت سے عذاب نقل کرتے ہیں، اور کبھی اپنے دوستوں کو بشارتیں دیتے ہیں۔ اور ان میں سے بعض اس طرح کہتے ہیں کہ رات کے بقیہ تہائی یا چوتھائی حصہ سے لیکر صبح کی نماز تک میں حق سبحانہ وتعالیٰ کے ساتھ کلام کرتا رہا اور ہر طرح کی باتیں پوچھتا رہا اور جواب لیتا رہا، ان لوگوں نے اپنے آپ میں تکبر کیا اور بڑی سرکشی کی۔ ان لوگوں کی باتوں سے مفہوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اس نور مرئی کو عین جل سلطانہ سمجھتے ہیں اور اس نور کو حق تعالیٰ کی ذات تصور کرتے ہیں، نہ یہ کہ اس کے ظہورات میں سے کوئی ظہور یا اس کے ظلال میں سے کوئی ظل جانتے ہوں۔ اس میں کوئی کچھ شک نہیں کہ اس نور کو حق جل سلطانہ کی ذات کہنا محض افترا ء، صرف الحاد اور خالص زندقہ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ جل شانہ کا نہایت ہی حلم وتحمل ہے کہ اس قسم کے مفتریوں کے لیے طرح طرح کے عذابوں میں جلدی نہیں کرتا اور ان کی بیخ کنی نہیں فرماتا۔“ [1]
ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
”اورسیدنا موسی علیہ السلام کی قوم صرف رویت کی طلب ہی کی وجہ سے ہلاک ہو گئی اورسیدنا موسی نے طلب رویت کے بعد ( لن ترانی ) کا زخم کھایا اور بیہوش ہو کر گر پڑے اور اس طلب سے تائب ہوئے۔ اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب رب العالمین اور تمام اولین وآخرین موجودات میں سے بہترین ہیں باوجودیکہ معراج بدنی سے مشرف ہوئے اور عرش وکرسی سے گذر کر مکان وزمان سے بھی بالا چلے گئے، باوجود قرآنی اشاروں کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رویت میں بھی علماء کا اختلاف ہے اور اکثر علماء نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عدم رویت کے قائل ہیں ، چنانچہ امام غزالی رحمہ اللہ (متوفیٰ 505ھ) فرماتے ہیں: صحیح یہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی شب میں اپنے رب کو
[1] مکتوبات حضرت مجدد ألف ثانی، دفتر دوم، مکتوب نمبر 1، مترجم مولانا سید زوار حسین شاہ: ص 315۔316، مکتبہ مجددیہ، کراچی