کتاب: رُشدشمارہ 08 - صفحہ 15
اللہ چاہتے ہیں، معجزے کا صدور ہوتا ہے۔ اسی طرح نبی کی برکت بھی اختیاری نہیں ہوتی بلکہ اللہ کے اذن سے جاری ہوتی ہے کہ ایک بندے کا کھانا ایک جماعت کو کفایت کر جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ نبی اور ولی اپنے ارادے سے جب چاہیں، معجزہ اور کرامت دکھا دیں یا برکت جاری کر دیں بلکہ یہ اسی وقت ہو گا جبکہ اللہ کا اذن اور حکم جاری ہو گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَ اِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكَ اِعْرَاضُهُمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِيَ نَفَقًا فِي الْاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِي السَّمَآءِ فَتَاْتِيَهُمْ بِاٰيَةٍ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدٰى فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْجٰهِلِيْنَ﴾ [1]
”اور اگر ان کی رُو گردانی آپ پر گراں گزرتی ہے تو اگر آپ کر سکیں تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈ نکالیں یا آسمان میں سیڑھی (تلاش کریں) ، پھر ان کے پاس کوئی معجزہ لائیں۔ اور اگر خدا چاہتا تو سب کو ہدایت پر جمع کر دیتا پس آپ ہرگز نادانوں میں سے نہ ہو جائیں۔“
چلیں! مان لیا کہ آپ کو کشف قبور ہو جاتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اب کیا کریں؟ ایک صوفی سے جب یہ سوال کیا گیا کہ اگر مجھے آپ کے سلسلہ میں شامل ہو جانے کے بعد کشف قبور ہونا شروع ہو گیا تو اس کے بعد مجھے کیا کرنا ہو گا؟ تو صوفی کا جواب یہی تھا کہ شریعت پرعمل کرنا ہوگا۔ اور یہ جواب بالکل صحیح ہے لیکن ہمارا کہنا یہ ہے کہ اس کی دعوت تو دوسرے لوگ کشف قبور کے مقام پر پہنچنے سے پہلے سے ہی دے رہے ہیں۔ اگر وہاں پہنچنے کے بعد بھی یہی کام کرنا ہے تو اس مشق (exercise) کا کیا فائدہ؟
اسی طرح مراقبے کے ذریعے صوفیاء کو جو مشاہدات ہوتے ہیں، ان میں ایک مشاہدہ ”مشاہدہ حق“ یا ”مشاہدہ وجود“ بھی ہے۔ صوفیاء کی ایک بڑی جماعت کا دعویٰ ہے کہ ہم اس دنیا میں رہتے ہوئے اللہ عزوجل کو یا صفت وجود حق سبحانہ وتعالیٰ کو اپنی روح کی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں لیکن اس کے لیے روح کی پرواز کی مشق کرنی پڑے گی اور وہ مراقبہ سے ہو گی۔ اس کا دعویٰ بھی کافی صوفیوں نے کیا ہے۔ اس سے اتنی بات تو کہی جا سکتی ہے کہ وہ کچھ دیکھتے ضرور ہیں، لیکن کیا دیکھتے ہیں؟ اس میں بحث ہو سکتی ہے؟ مثلا ً آپ ابھی اگر اپنا سر جھکا کر اپنی آنکھیں کچھ دیر کے لیے بند کر لیں تو کچھ نہ کچھ تو نظر آنا شروع ہو ہی جائے گا کیونکہ انسانی ذہن کی بنیادی ساخت ہی کچھ ایسی ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ تصور (imagination) کرتا رہے، چاہے نیند میں ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ مشاہدات میں اختلاف نہیں ہے کہ وہ ہوتے ہیں کیونکہ انسان اور اس کا دماغ بہت ہی پراسرار شیء ہے جس کا کسی قدر اندازہ ’’سائیکالوجی‘‘ کے طالب علموں کو ہے۔
اس بارے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جس طرح ظاہری حواس (senses) خطاء کرتے ہیں جسے خطائے حس (hallucination) کہتے ہیں، اسی طرح باطنی حواس بھی خطا ءکر جاتے ہیں۔ یہ بات رجال تصوف میں سے
[1] سورة الأنعام:6: 35