کتاب: رُشدشمارہ 08 - صفحہ 14
اگر یہ دین کا موضوع ہوتا تو صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ دین نے اس پر کچھ نہ کچھ تو گفتگو کی ہوتی جبکہ ’’سائیکالوجی‘‘ میں مراقبہ (meditation) ایک پورا میدان ہے اور مغرب میں تو اب پیرا سائیکالوجی، یوگا، ٹیلی پیتھی اور میڈی ٹیشن وغیرہ ایک پوری سائنس بن چکا ہے۔ البتہ نبی اور رسول کے مشاہدات اور مکاشفات پر جب بات ہو گی تو اس وقت یہ دین کا موضوع ہوں گے اور ان پر ایمان لانا واجب ہو گا کیونکہ نبی اور رسول ان مشاہدات اور مکاشفات کے لیے مراقبے کے ذریعے تکلف اور تصنع سے کام نہیں لیتے تھے۔ اور جہاں تک صوفیاء کے مشاہدات اور مکاشفات کی بات ہے تو ہمیں جدید علم نفسیات (modern psychology) کی روشنی میں بھی ان کو سمجھنے کی کوشش کرنی ہو گی کہ خود صوفیاء کا ان مشاہدات اور مکاشفات میں اتفاق نہیں اور وہ اس بارے ایک دوسرے کا رد بھی کرتے ہیں کہ جس کے بیان کا یہاں موقع نہیں ہے۔ جہاں تک کشف قبور کی بات ہے تو اسے صوفیاء کے بعض حلقوں کی جانب سے ایسے پیش کیا جاتا ہے جیسے یہ کوئی بہت بڑا روحانی مقام ہو حالانکہ محققین صوفیاء نے کشف اور کرامت کو صوفی کا حیض اور نقص قرار دیا ہے۔ [1] شیخ احمد الرفاعی رحمہ اللہ (متوفیٰ 578ھ) فرماتے ہیں: ’’الولي لا يظهر الكرامة ولا ترغب للكرامات وخوارق العادات فإن الأولياء يستترون من الكرامات كما تستتر المرأة من الحيض. ‘‘[2] ”ولی کبھی بھی اپنی کرامت ظاہر نہیں کرتا اور نہ ہی اسے کرامات اور خوارق عادت (supernatural) کے اظہار میں کوئی دلچسپی ہوتی ہے۔ اولیاء تو اپنی کرامات کو یوں چھپاتے پھرتے ہیں جیسے کہ عورت اپنے حیض کو۔“ حیض کی دو تعبیریں کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ جیسے عورت اپنے حیض کو چھپاتی ہے، ایسے ہی صوفی بھی اپنے کشف اور کرامت کو چھپاتا ہے۔ دوسری تعبیر جو نسبتاً زیادہ بہتر ہے، یہ ہے کہ جیسے حیض کے جاری ہونے پر عورت کا اختیار نہیں ہے اور اس کا جاری ہونا اس کے لیے تکلیف ، اذیت اور ناپسندیدگی کا باعث ہوتا ہے تو اسی طرح صوفی کو کشف اور کرامت کے جاری ہونے سے کراہت ہوتی ہے۔ پس وہ کوئی بھی ایسا راستہ اختیار نہیں کرتا کہ جو اس کی ذات سے کسی کشف یا کرامت کے صدور کا ذریعہ بنے۔ اصولی بات یہی ہے کہ کرامت تو کجا نبی کا معجزہ بھی اختیاری نہیں ہوتا ہے بلکہ اللہ کے حکم سے ہوتا ہے۔ جب
[1] الألوسي، شهاب الدين محمود بن عبد الله الحسيني، روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني: 6/167، دار الكتب العلمية، بيروت،الطبعة الأولى، 1415 ھ [2] أحمد بن علي بن ثابت الرفاعي، البرهان المؤيد: ص 128، دار الكتاب النفيس، بيروت 1408 ھ