کتاب: رُشدشمارہ 08 - صفحہ 13
نہ صرف حمایت کرتے نظر آتے ہیں بلکہ عملا ًاس کی مشق بھی کرتے رہے ہیں اور بعض تو باطنی آنکھ کے کھلنے پر قسم کھاتے بھی نظر آتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص فجر کی نماز کے بعد مسجد میں بیٹھ کر پندرہ بیس منٹ کے لیے آنکھیں بند کر کے اپنے حواس معطل کر دے اور ذہن صرف اسی نقطہ پر مرکوز کر دے کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے تو کیا یہ شرعاً جائز ہو گا؟ اور دلیل اس میں حدیث جبرئیل علیہ السلام کو بنائے کہ میں وہ کیفیت حاصل کرنے کے لیے مشق کر رہا ہوں کہ اللہ کی ایسے عبادت کروں کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہو، اور اگر اس سوال میں ایک اضافہ یہ بھی کر لیا جائے کہ اگر اس مشق سے واقعتاً اس کو بہت فائدہ ہوتا ہو جیسا کہ صوفیاء نے دعویٰ کیا ہے کہ مراقبہ سے احسان کی کیفیات قطعی طور حاصل ہوتی ہیں تو کیا مقصد شرعی کے حصول کے لیے ایسا کرنا جائز ہو گا؟
ہماری رائے میں اس قسم کے مراقبہ کا ثبوت سنت، صحابہ وتابعین، ائمہ دین، خیر القرون، سلف صالحین اور متقدمین صوفیاء سے نہیں ملتا، لہٰذا ایک بات تو یقینی ہے کہ اس مراقبہ میں کوئی ایسی خیر نہیں ہے جو اس کے بغیر حاصل نہ ہو سکتی ہو۔ اس لیے اس طریقہ کار سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ اس امت کے متقدمین کو جو خیر حاصل تھا، متاخرین اس کو کبھی نہیں پہنچ سکتے۔ اور وہ خیر متقدمین کو مراقبہ کے بغیر ہی حاصل ہوا تھا۔ دین نے نہ صرف خیر کے بارے بتلایا ہے کہ وہ کیا ہے بلکہ خیر کے حصول کے ذرائع بھی دین ہی کا موضوع ہیں اور دین نے اُن ذرائع کو بھی تفصیل سے بیان کر دیا ہے کہ جن سے وہ خیر حاصل ہو گا، جو آخرت میں نجات کے لیے ضروری ہے۔
صوفیاء کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے غار حرا میں مراقبہ کیا تھا لیکن یہ بات ثابت نہیں ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے پہلے غار حرا میں دین ابراہیمی کی بچی کھچی روایات کے مطابق اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی عبادت کرتے تھے۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت نہیں ہے کہ نبوت ملنے کے بعد آپ نے کبھی غار حرا کا رخ کیا ہو لہذا آپ کا نبوت کے ملنے کے بعد کا عمل اصلا ًحجت ہے۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، سلف صالحین اور متقدمین صوفیا ءنے مراقبہ کو تقرب الی اللہ کا نہ تو خود ذریعہ بنایا ہے اور نہ ہی اس کی تعلیم دی ہے۔
صوفیاء مراقبہ کے ذریعے سیرالی اللہ، فنا فی اللہ، سیر من اللہ، بقا باللہ کے مراتب سے گزرتے ہیں۔ ان کے بقول وہ مقام اعراف کو دیکھتے ہیں، اپنے رب کا دیدار کرتے ہیں، موت کے بعد کی زندگی کا مشاہدہ کرتے ہیں اور فوت شدگان سے ملاقات کرتے ہیں وغیرہ ۔ اور اس سب کچھ کے مشاہدے پر قسمیں کھاتے ہیں۔ یہ دعوے ہزار سال سے بہت لوگ کر رہے ہیں۔ بعض سلاسل میں تو کشف قبور بھی ان کے امتیازات میں شامل ہے جیسا کہ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کے سالکین کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ قبر میں مردے کو ہونے والی جزا وسزا کے بارے بھی بتلا سکتے ہیں۔
ہمارے نزدیک وہ جمیع موضوعات کہ جن کا تعلق مشاہدات اور مکاشفات سے ہے، علم نفسیات کے تحت داخل ہیں اور انہیں دین کا موضوع نہیں سمجھنا چاہیے لہٰذا مراقبہ دین کا نہیں بلکہ ’’سائیکالوجی‘‘ کا موضوع ہے۔