کتاب: رُشدشمارہ 08 - صفحہ 12
سلف صالحین کے تصور مراقبہ کو بیان کر رہی ہے اور یہی وہ مراقبہ ہے کہ جس کی صدائے بازگشت آج بھی خطبات حرمین میں ملے گی۔ اس مراقبہ کے جواز میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے۔ مراقبہ کا ذکر ہندو ویدوں (Vedas) میں ملتا ہے اور دنیا کی معلوم تاریخ میں ہندومت ہی وہ پہلا مذہب ہے جہاں مراقبہ کو مذہبی شعائر کی حیثیت سے شروع کیا گیا۔ اس کے بعد بدھ مت میں اس کو بہت اہمیت دی گئی۔ سنسکرت زبان میں مراقبہ کے لیے ”بھوانا“ اور تبت کی زبان میں ”گوم“ کا لفظ مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ہندومذہبی ادب ” اُپنِشد“ میں ہمیں مراقبہ کا ذکر ملتا ہے۔ [1] بدھ مت میں مراقبہ بہت زیادہ ہے بلکہ ان کے ہاں تو اصل عبادت ہی یہی ہے کہ ہفتوں بارہ بارہ گھنٹے مراقبہ ہوتا ہے۔ [2] متقدمین صوفیاء میں مراقبہ رائج نہیں تھا جبکہ متاخرین نے اسے ایک پوری سائنس بنا دیا ہے کہ جس سے بیماریوں کا علاج تک کیا جاتا ہے۔ اس مراقبہ کے لیے درجات، قسمیں، اوقات اور ہدایات کی لمبی چوڑی تفصیلات ہیں۔ مثال کے طور وہ کہتے ہیں کہ مراقبہ کا بہترین وقت طلوع آفتاب سے پہلے ہے یا غروب آفتاب کے بعد اور اس کی ایک معقول وجہ ان کے پاس یہ ہے کہ لا شعوری حواس (unconsciousness) اس وقت میں متحرک ہوتے ہیں یا ہونا شروع کر دیتے ہیں اور شعور سکون میں چلا جاتا ہے یا جانا شروع کر دیتا ہے۔ مراقبہ کے جدید تصور کو جاننے کے لیے سلسلہ چشتیہ عظیمیہ کے روحانی پیشوا خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی کتاب ”مراقبہ“ ایک عمدہ تحریر ہے کہ جس میں انہوں نے روشنیوں کے مراقبے کا تصور دیا ہے۔ صوفیاء کے نزدیک مراقبہ کا اوسط وقت 20 تا 45 منٹ ہوتا ہے اور اس وقت میں آپ نے ایک کم روشنی والی جگہ میں سکون واطمینان سے بیٹھ جانا ہے اور اپنے حواس معطل کر دینے ہیں ۔ آنکھیں، کان اور سوچ کو بند کرتے ہوئے خالی الذہن ہو جائیں۔ اور خالی الذہن ہونے سے مراد تمام سوچوں کو معطل کر کے ایک نقطے پر مرکوز کرنا ہے۔ اوسط مراقبے چار مہینے تک جاری رہتے ہیں لیکن اس طرح کے مراقبوں میں پہلے مہینے میں ہی انسان کو عجیب و غریب مشاہدات کا سامنا ہوتا ہے۔ صوفیا ءمراقبوں کے ذریعے عالم مثال، عالم برزخ اور عالم امر کی سیر کرتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ جسے ہماری سیر کا یقین نہ آئے وہ خود سے تجربہ کر کے دیکھ لے۔ صوفیاء یہ کہتے ہیں کہ ظاہری حواس معطل کر دینے اور ذہن کو ایک نقطہ پر مرکوز کر دینے سے لا شعوری طاقتیں (five senses of the soul) نفس میں بیدار ہو جاتی ہیں اور ان کے ذریعے انسان باطنی دنیا کو دیکھنا شروع کر دیتا ہے یعنی وہ دنیا جو وہ موت کے بعد دیکھے گا۔ امام غزالی (متوفیٰ 505ھ) سے لے کر شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ (متوفیٰ 1762ھ) تک بڑے بڑے نام ملتے ہیں جو اس تصور مراقبہ کی کسی نہ کسی درجے میں
[1] Alexander Berzin, Meditation Methods, Moscow: The Berzinarchives, 2005 [2] موسی بھٹو، محمد، مراقبہ، ص 29،سندھ نیشنل اکیڈمی ٹرسٹ، حیدر آباد