کتاب: رُشدشمارہ 07 - صفحہ 79
فانکم إذا فعلتم ذلك قطعتم أرحامکم)) [1]"کوئی عورت اپنی پھوپھی اور خالہ پر نکاح نہ کرے، اگر تم نے ایسا کیا تو گویا تم نے قطع رحمی کی۔"آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا مقصد حرمت کی علت کو واضح فرماناتھا۔
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کے والد کو، جب انہوں نے اپنی اولادمیں سے صرف انہی ایک کو تحفہ دیا تھا، کہ ’’أیسرك أن یکون لك في البر سواء؟‘‘ ’’کیا تو چاہتا ہے کہ تجھ سے نیکی کرنے میں سب اولاد برابر ہو؟ تو انہوں نے کہا: ہاں! اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((فاتقواللّٰہ واعدلوا بین أولادکم)) [2] ’’ اللہ سے ڈرو! اور اپنی اولاد کے درمیان عدل کرو۔‘‘ ایک روایت کے الفاظ کچھ یوں ہیں: (( لایصلح هذا )) [3]’’یہ درست نہیں ہے۔‘‘ اور ایک روایت میں کچھ یوں ہے:(( إني لا أشهد على جور)) [4] ’’ میں ظلم پر گواہی نہیں دیتا۔‘‘ اورایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ڈانٹتے ہوئے کہا : ’’فاشهد على هذا غیری‘‘[5] ’’میرے علاوہ کسی کو گواہ بنا لو۔‘‘ ان تمام الفاظ کے بیان کرنے کا مقصد آپ کا ان کو حکم کی علت پر متنبہ کرنا مقصود تھا۔ [6]
لہٰذا مفتی کے لیے ضروری ہے کہ وہ سائل کو حکم کی علت اور اس کے مأخذ و مصدر سے بھی آگاہ کرے ۔ ورنہ ہركوئی حکم کی علت سے واقفیت حاصل نہیں کر سکتا ہے۔ اس کی مثال اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں بھی پائی جاتی ہے۔ کہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حائضہ عورت کے بارہ میں سوال کیا تو جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ قُلْ هُوَ اَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَآءَ فِي الْمَحِيْضِ﴾ [7]
’’کہہ دو ! وہ ایک گندگی کی حالت ہے، تم اس میں عورتوں سے الگ رہو۔‘‘
یہاں اللہ تعالیٰ نے حکم بیان کرنے سے پہلے اس کی علت بیان کی ہے۔اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:
[1] صحيح البخاري، كتاب النكاح، باب لا تنكح المرأة على عمتها:5108
[2] صحيح البخاري، كتاب الهبة وفضلها والتحريض عليها، باب الإشهاد في الهبة:2587
[3] ابن حبان، محمد بن حبان بن أحمد بن حبان بن معاذ بن معبد، صحيح ابن حبان، كتاب الهبة، ذكر البيان بأن قوله فأوجعه: 5101، مؤسسة الرسالة، بيروت، الطبعة الأولى، 1988م
[4] صحيح البخاري، كتاب الشهادات، باب لا يشهد على شهادة جور إذا أشهد: 2650
[5] البيهقي، أبو بكر أحمد بن الحسين بن علي، السنن الكبرى للبيهقي، كتاب الهبات، باب ما يستدل به على أن أمره بالتسوية بينهم في العطية على الاختيار دون الإرحاب: 12002، دار الكتب العلمية، بيروت، الطبعة الثالثة، 2003م
[6] إعلام الموقعين: 4/161-163
[7] سورة البقرة:2: 222