کتاب: رُشدشمارہ 07 - صفحہ 76
’’سمندر کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار حلال ہے۔‘‘ امام ابن قیم رحمہ اللہ کا یہ منہج کوئی حادثاتی نہیں بلکہ ان کی بصیرت، دانشمندی اور دور اندیشی بالخصوص علوم شرعیہ میں ان کے خالص ذہنی ارتکاز کی علامت ہے۔ فائدہ جب کسی مسئلہ کی نسبت امام ابن قیم رحمہ اللہ کی طرف کی جاتی ہے تو طالب علم آپ کی تصنیفات میں تلاش بسیار کے باوجود بھی اس تک نہیں پہنچ پاتے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ نسبت غلط کی گئی ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ امام صاحب بسا اوقات استطراداً اس مسئلہ کو کسی طویل مسئلہ کے ضمن میں درج کر دیتے ہیں۔ اس کی چند ایک مثالیں درج ذیل ہیں: ۱۔ امام صاحب رحمہ اللہ نے جہنم کی آگ کے ابدی رہنے اور فنا ہو جانے کے مسئلہ کو اپنی دو کتابوں ’’حادی الأرواح‘‘[1] اور ’’شفاء العلیل‘‘[2]میں ذکر کیا ہے۔ اس سے اکثر اہل علم یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ امام ابن قیم رحمہ اللہ جہنم کی آگ کے فنا ہو جانے کے قائل ہیں حالانکہ امام صاحب کی رائے بالکل اس کے برعکس ہے۔ آپ نے اس مسئلہ کی صراحت اپنی ایک دوسری کتاب’’الوابل الصیب‘‘[3] میں یوں کی ہے کہ جو آگ فنا نہیں ہوگی وہ آگ کافروں اور منافقوں کی ہوگی اور جو آگ فنا ہو جائے گی وہ توحید پرست گنہگاروں کی ہوگی۔ آپ فرماتےہیں: ”لوگوں کے تین طبقے ہوں گے: ۱۔ پاکیزہ افراد جن میں خبث نہیں ہوگا۔ ۲۔ خبیث لوگ جن میں پاکیزگی نہیں ہوگی۔ ۳۔ ایسے لوگ جن میں پاکیزگی اور خباثت دونوں چیزیں ہوں گی۔ پھر ان کے گھر بھی تین قسم کے ہوں گے۔ خالص پاکیزہ گھر ، خالص خبیث گھر ، یہ دونوں گھر تو کبھی بھی فنا
[1] ابن قیم الجوزية، محمد بن أبي بكر، حادي الأرواح إلى بلاد الأفراح: ص276، مؤسسة الرسالة، بيروت، الطبعة الثالثة، 2003م [2] ابن قیم الجوزية، محمد بن أبي بكر، شفاء العليل في مسائل القضاء والقدر والحكمة والتعليل: ص 528، دار الحديث، القاهرة، الطبعة الأولى، 2005م [3] ابن قيم الجوزية، محمد بن أبي بكر، الوابل الصيب من الكلم الطيب: ص29، دار الحديث القاهرة، الطبعة الثالثة، 1999م