کتاب: رُشدشمارہ 07 - صفحہ 50
چند ایک امثلہ درج ذیل ہیں: صحیح بخاری میں سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ (متوفیٰ 66ھ) کا معروف قصّہ موجود ہے کہ جب رمضان المبارک میں سحری کا حکم نازل ہوا کہ اس وقت تک سحری میں کھا پی سکتے ہو جب تک سفید اور سیاہ دھاریاں الگ الگ ظاہر نہ ہو جائیں ۔ یہاں قرآنِ کریم کی مراد طلوعِ فجر کے وقت مشرق کی جانب آسمان پر نظر آنے والی سفید روشنی اور سیاہ اندھیرے کی دھاریاں ہیں جن کا الگ الگ نظر آنا طلوعِ فجر کی علامت ہے اور اسی کے ساتھ سحری کا وقت ختم ہو جاتا ہے ، مگر عدی بن حاتم نے یہ کیا کہ دھاگے کی سفید اور سیاہ ڈوریاں اپنے تکیہ کے نیچے رکھ لیں اور سحری کے وقت انہیں دیکھ کر کھاتے پیتے رہتے اور جب وہ الگ الگ دکھائی دینے لگیں تو کھانا پینا چھوڑدیتے ۔ ایک روز رسولِ ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کا تذکرہ ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا: ((إِنَّ وِسَادَكَ إِذًا لَعَرِيضٌ أَنْ كَانَ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ وَالْأَسْوَدُ تَحْتَ وِسَادَتِكَ )) [1] ’’ اگر سفید اور سیاہ دھاری تمہارے تکیے کے نیچے آجائے تو پھر تو تمہارا تکیہ بہت ہی چوڑا ہے ۔ اس کے بعد سیدنا عدی بن حاتم بات کو سمجھے اور تکیہ کے نیچے سے دھاگے کی ڈوریاں نکال لیں ۔‘‘ غور طلب بات یہ ہے کہ عدی بن حاتم عربی ہیں اور عربی کے بیٹے ہیں، سردار ہیں اور سردار کے بیٹے ہیں مگر قرآنِ کریم کا بیان کردہ محاورہ سمجھنے میں غلطی لگ گئی اور اس وقت قرآنِ کریم کا مطلب نہیں سمجھ پائے جب تک خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت نہیں فرما دی۔ اس لئے اگر آج کوئی عربی یا عجمی شخص یہ کہتا ہے کہ وہ محض ’عربی دانی‘ کے زور پر قرآنِ کریم کا مفہوم و مراد کو پاسکتا ہے تو یہ بات کیسے قبول کی جاسکتی ہے ؟ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک شخصی واقعہ ہے اور کسی بھی شخص کو ذاتی طور پراس قسم کا مغالطہ ہو سکتا ہے، ا س لئے ایک اجتماعی مثال بھی حسبِ ذیل ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ جب سورۂ انعام کی حسب ذیل آیت مبارکہ نازل ہوئی : ﴿ اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ يَلْبِسُوْا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَ هُمْ مُّهْتَدُوْنَ﴾[2] ’’ جولوگ ایمان لائے پھر اپنے ایمان کو ظلم (شرک) سے آلودہ نہیں کیا۔ انہی کیلئے امن وسلامتی ہے اور یہی لوگ راہ راست پر ہیں ۔‘‘ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بے چینی پھیل گئی۔ انہوں نے ظلم کا عام مفہوم سمجھا کہ لوگوں میں باہمی معاملات و حقوق اور لین دین میں جو کمی بیشی اور حق تلفی ہو جاتی ہے وہ ظلم ہے ، اور بلا شبہ ’ظلم‘ کا عمومی مفہوم یہی ہے۔ انہیں پریشانی اس بات پر ہوئی کہ یہ کمی بیشی تو انسانی معاشرت کا حصہ ہے اور روز مرہ کے معاملات میں کہیں نہ کہیں ہو ہی جاتی ہے، اس سے
[1] صحيح البخاري: كتاب تفسير القرآن، باب قوله: ﴿ وَ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ١۪ ﴾ ، 4509 [2] سورة الأنعام :6: 28