کتاب: رُشدشمارہ 07 - صفحہ 49
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جميع ما تقوله الأمّة شرح للسّنة وجميع السّنة شرح للقران. ‘‘[1]
’’ علمائے امت کی تمام باتیں سنت کی شرح ہیں، اور تمام سنت قرآن کی شرح ہے۔‘‘
یہی اندازِ تفسیر صائب ہےکیونکہ قرآنِ مجید کے اکثر معانی و مفاہیم اور مدلولات کو حدیث و سنت سے متعین کر دیا گیا ہے ۔اور ان معانی و مفاہیم کے تعین کی ذمّہ داری آیتِ کریمہ ﴿ وَ اَنْزَلْنَا اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ ﴾ [2] کے مصداق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں ناصر الدین البانی رحمہ اللہ (متوفیٰ1999ء)فرماتے ہیں:
’’اس آیت میں جس ’بیان‘ کاذکر ہوا ہے وہ دراصل سنت ِمطہرہ ہے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ نے فہم قرآن کیلئے اہلِ عرب کی زبان دانی کو معیار نہیں بنایا، باوجود اس کے کہ وہ انتہائی فصیح اللّسان تھے ۔ چنانچہ ایسے عجمی جو چند دن عرب میں رہ گئے یا عربی زبان سیکھ لی، ان کے ’تبحّرِ علمی‘ کو وضاحتِ قرآن کیلئے کیونکر قابلِ اعتماد ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ جبکہ عصر حاضر میں اس دور سے زیادہ ’بیانِ قرآن‘ کی ضرورت ہے۔‘‘
آیت ِمذکورہ میں ’بیان‘ سے مراد وہ وحی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر اِلقا ءفرمایا اور اللہ تعالیٰ کی اس حکمت کی ایک وحی ایسی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے متلوّ اور متعبد بنایا ہے ، جس کا ماحصل قرآنِ کریم ہے ۔ دوسری وہ وحی ہے جو قرآنِ حکیم کی طرح متلوّ تو نہیں، لیکن اس کی حفاظت ضروری ہے، اس لئے کہ اس کے بغیر قرآنِ حکیم کے مکمل فہم کی کوئی صورت ہی نہیں ۔ لہٰذا وہ وحی جو قرآنِ مجید کی صحیح وضاحت کرتی ہے، قرآن پاک ہی کہلائے گی اور یہی وہ وضاحت ہے جس کا نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس آیت میں صریحاً مکلّف بنایا گیا ہے ۔‘‘ [3]
تفسیر قرآن کا اہم ذریعہ: حدیث!
قرآنِ مجید کو صرف لغت سے نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ اگر ایسی بات ہوتی تو صحابہ کرام کو قرآن کی تفسیر کیلئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی کی ذرہ برابر ضرورت نہ رہتی۔ اور امر واقعہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہمیشہ قرآن کی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی لیتے تھے اور جب کبھی حضراتِ صحابہ نےاپنے طور پر صرف لغت سے الفاظِ قرآن کا مفہوم متعین کرنا چاہا تو ایسی ہی مشکل کا سامنا کرنا پڑا جیسے آج کے’ اہل قرآن ‘ مفسرین کو کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کی
[1] الإتقان في علوم القرآن: 2 / 330
[2] سورة النّحل: 16 : 44
[3] حسن مدنی، حافظ، ڈاکٹر، قرآن فہمی کے بنیادی اصول، نامور مفسر کے قلم سے: ص100، مجلس التحقیق الاسلامی، لاہور، 2005ء