کتاب: رُشدشمارہ 07 - صفحہ 44
أَوْفَیٰ )) کہ اے اللہ! ابو اوفیٰ کی آل پررحمتیں نازل فرما۔‘‘ [1]
یہی وجہ ہے کہ شرعی اصطلاحات کو صرف لغت کی بنیاد پر نہیں سمجھا جاسکتا جب تک کہ مقصدِ شارع معلوم نہ ہو۔سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ (متوفیٰ1979ء) لکھتے ہیں:
’’قرآن کا سرسری مطالعہ بھی اگر کسی شخص نے کیا ہو تو یہ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس میں بکثرت ایسی مسائل موجود ہیں جنہیں ایک عربی دان آدمی محض قرآن کے الفاظ پڑھ کر یہ نہیں جان سکتا کہ ان کا حقیقی مُدعا کیا ہے او ران میں جو حکم بیان کیا گیا ہے اس پر کیسے عمل کیا جائے؟ مثال کے طور پر لفظ صلوٰۃ ہی کو لے لیجئے۔ قرآنِ مجید میں ایمان کے بعد اگر کسی عمل پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے تووہ صلوٰۃ ہے لیکن محض عربی لغت کی مدد سے کوئی شخص اس کامفہوم متعیّن نہیں کرسکتا۔ قرآن مجید میں اس کا ذکر بار بار دیکھ کر زیادہ سے زیادہ جو کچھ وہ سمجھ سکتا ہے وہ یہ ہے کہ عربی زبان کے اس لفظ کو کسی خاص اصطلاحی معنیٰ میں استعمال کیا گیا ہے اور اس سے مراد غالباً کوئی خاص فعل ہے جسے انجام دینے کا اہلِ ایمان سے مطالبہ کیا جارہا ہے، لیکن صرف قرآن پڑھ کر کوئی عربی دان یہ طے نہیں کرسکتا کہ وہ خاص فعل کیا ہے اور کس طرح اسے ادا کیا جائے؟ سوال یہ ہے کہ اگر قرآن بھیجنے والے نے اپنی طرف سے ایک معلّم کو مقرر کرکے اپنی اس اصطلاح کا مفہوم اسے ٹھیک ٹھیک نہ بتایا ہوتا اور صلوٰۃ کے حکم کی تعمیل کا طریقہ پوری وضاحت کےساتھ اسے نہ سکھا دیا ہوتا تو کیا صرف قرآن کو پڑھ کر دُنیامیں کوئی دو مسلمان بھی ایسے ہوسکتے ہیں جو حکم صلوٰۃ پرعمل کرنے کی ایک شکل پر متّفق ہوجاتے؟ ‘‘ [2]
اسی بحث کے ضمن محدث روپڑی رحمہ اللہ (متوفیٰ1962ء) فرماتے ہیں:
’’قرآنِ مجید کے سمجھنے کیلئے صرف لغت کافی نہیں بلکہ حدیثِ نبوی یا تفسیر صحابہ کی بھی ضرورت ہے، کیونکہ لغت میں لفظ کے ایک معنی ہوتے ہیں اور شرع اس سے اور معنیٰ مراد لیتی ہے۔ مثلاً لفظِ صلوٰۃ کے معنی تحریک الصلوین کے ہیں۔ پس اگر ہم صرف لغت پر اکتفا کریں تو ایک حکمِ شرعی بھی ثابت نہ ہوگا۔‘‘ [3]
مزید فرماتے ہیں:
’’لغت میں بعض الفاظ کے چند معانی لکھے ہیں، جیسے لفظ صلوٰۃ اور زکوٰۃ ہے۔ تو یہ کہاں سے معلوم ہوگا کہ آیتِ کریمہ ﴿وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ ﴾میں صلوٰۃ بمعنیٰ ’’عبادة فيها ركوع وسجود‘‘اور زكوٰة بمعنیٰ ’’ما أخرجته من مالك لتطّهره‘‘ مراد ہیں۔ شاید صلوٰۃ بمعنیٰ دُعا مراد ہو اور زکوٰۃ بمعنیٰ تطہیر نفس
[1] أصول في التّفسیر: ص32
[2] مودودی، سید ابو الاعلیٰ، تفہیم القرآن: 6 / 170، ادارہ ترجمان القرآن، لاہور، 1984ء
[3] روپڑی، حافظ عبد اللہ،محدث، درایتِ تفسیری:ص 45، 46، مطبع سٹیم پریس، امر تسر