کتاب: رُشدشمارہ 07 - صفحہ 43
تھا۔ انہوں نے انگور سے کشید کردہ خمر کو خاص نہیں کیاتھا۔ اگر تسلیم بھی کرلیا جائے تو پھر بھی جب یہ ثابت ہوگیا ہے کہ ہر نشہ آور چیز کو شرعاً خمرکہا جاتا ہے تو یہ معنیٰ لغوی حقیقت پرمقدّم ہوگا۔‘‘
ابن عبدالبر رحمہ اللہ (متوفیٰ 463ھ) کہتے ہیں:
’’إنّ الحکم إنّما یتعلّق بالاسم الشّرعي دون اللّغوي. ‘‘[1]
’’ حکم شرعی اسم سے متعلّق ہوتا ہے نہ کہ لغوی اسم سے۔‘‘
لغوی اور شرعی معنیٰ میں اختلاف کے مسئلے میں شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ (متوفیٰ2001ء) لکھتے ہیں:
’’اگر شرعی اور لغوی معنیٰ میں اختلاف ہوجائے تو اس مفہوم کو لیا جائے گا جس کا شرعی معنی تقاضا کرتا ہے کیونکہ قرآن شریعت بیان کرنے کیلئے نازل ہواہے نہ کہ لغت کے بیان کیلئے۔ ہاں اگر کوئی ایسی دلیل موجود ہو جس سے لغوی معنیٰ راجح قرار پاتا ہو تو لغوی معنی کو لیا جائے گا۔ شرعی معنیٰ کومقدّم ماننے کی مثال اللہ تعالیٰ کا منافقین کے بارے میں یہ فرمان ہے: ﴿ وَ لَا تُصَلِّ عَلٰى اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا ﴾ کہ ان میں سے کوئی مرجائے تو کبھی اس (کے جنازے) پر نماز نہ پڑھنا۔ لغت میں ’صلاۃ‘ سے مراد دُعا ہے اور شرعاً یہاں میت پر دُعا کیلئے مخصوص انداز سےکھڑے ہونا ہے، یعنی نماز جنازہ پڑھنا مراد ہے تو یہاں شرعی معنیٰ مقدّم ہوگا کیونکہ متکلّم (اللہ تعالی) کو مخاطب کا عرف مقصد ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلّق ہے کہ منافقین کیلئے دُعا کرنا مطلقاً منع ہے تو یہ اس دلیل سے نہیں بلکہ دوسری دلیل سے ثابت ہوتا ہے۔‘‘ [2]
ایک لفظ کے دو معانی میں سے لغوی معنیٰ کو ترجیح دینے کی مثال اللہ جل جلالہ کا یہ فرمان ہے:
﴿ خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّيْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ﴾ [3]
’’ آپ ان کے اموال سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کرلیں جس سے آپ انہیں (ظاہر میں بھی) پاک اور (باطن میں بھی) پاکیزہ کرتے ہیں اور ان کے حق میں دُعائے خیر کریں۔‘‘
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ مذکورہ آیت میں آنے والے لفظِ صلاۃ کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’اس سے یہاں مراد دُعا ہے اسکی دلیل صحيح مسلم میں سیدنا عبداللہ بن ابو اوفیٰ سے مروی حدیث ہے کہ جب کسی قوم کی طرف سے زکوٰۃ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچتی تو آپ ان کیلئے دُعا فرماتے۔ میرے والد اپنی زکوٰۃ لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آ پ نے دُعا فرمائی: (( اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَىٰ آلِ أَبِي
[1] فتح الباري: 10 / 49
[2] العثيمين، محمد بن صالح، أصول في التّفسیر:1/27، المكتبة الإسلامية، الطبعة الأولى، 2001م
[3] سورة التّوبة: 9 : 103