کتاب: رُشدشمارہ 07 - صفحہ 40
مفاہیم کیلئے نازل نہیں ہوئی، البتہ اگر شرعی معنیٰ متعذر ہو تو لغویٰ معنی بھی لیا جاتا ہے۔ لیکن لغوی معنی مراد لینے کیلئے کوئی واضح قرینہ یا دلیل موجود ہونا ضروری ہے۔امام زرکشی رحمہ اللہ (متوفیٰ 1392ھ) لکھتے ہیں:
’’أن تختلف أصل الحقيقة فيهما فیدور اللفظ بین معنیین، هو في أحدهما حقيقة لغوية وفي الآخر حقيقة شرعية، فالشّرعية أولى إلا أن تدلّ قرينته على إرادة اللّغوية. ‘‘[1]
’’ اگر لفظ دو معانی کے درمیان گردش کررہا ہو،ایک اعتبار سے لغوی معنی جبکہ دوسرے اعتبار سے شرعی معنی مراد لیا جاسکتا ہو تو شرعی معنیٰ مقدم ہوگا ہاں اگر کوئی ایسا قرینہ موجود ہو جو لغوی معنیٰ مراد لینے پر دلالت کرے تو لغوی معنیٰ مراد لیا جائے گا۔‘‘
اس كی توجیہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شرعی احکام کی پہچان کروانے کیلئے مبعوث ہوئے ہیں، اور شرعی احکام کی معرفت آپ کے ذریعے سے ہی ہوسکتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس چیز کی پہچان کروانے کیلئے مبعوث نہیں ہوئے جواہلِ لغت کے ہاں معروف ہے، لہٰذا ضروری ٹھہرا کہ لفظ کو اسی معنی پر محمول کیا جائے جس میں بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقاصد سے مطابقت ہو۔ [2]
ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (متوفیٰ 852ھ)نے اس مسئلہ کو فتح الباری میں کئی مقامات پر ذکر کیا ہے، طیبی رحمہ اللہ (متوفیٰ 743ھ) كے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’شارع کا کلام اس کے بیان اور وضاحت پر محمول کیا جائے گا کیونکہ اس کے مخاطب اہلِ زبان تھے گویا کہ ان باتوں کے ساتھ ان سے خطاب کیا گیا ہے جن کا علم ان کوشارع کی طرف سے ہی ملا ہے تو لفظ اسی معنیٰ پر محمول کیا جائے گا جس سے شرعی حکم کا پتا چلے۔‘‘ [3]
مزيد فرماتے ہیں:
’’أنّ ألفاظ الشّرع إذا دارت بین الحقيقة اللّغوية والشّرعية حملت على الشّرعية إلا إذا قام دليل. ‘‘[4]
’’ الفاظِ شریعت جب لغوی اور شرعی معنی کے درمیان گھوم رہے ہوں تو ان کو شرعی حقیقت پرمحمول کیا جائے البتہ اگر کوئی دلیل مل جائے تو ان کو لغوی حقیقت پر محمول کیا جائے گا۔‘‘
[1] البُرهان: 2/ 167
[2] الآمدي، علي بن محمد، الإحکام في أصول الأحکام: 3 / 26، دار الكتاب العربي، بيروت، الطبعة الأولى، 1984م
[3] العسقلاني، أحمد بن علي بن حجر، فتح الباري شرح صحيح البخاري: 1/13، دار الكتاب العلمية، بيروت، الطبعة الثالثة، 2000م
[4] أیضاً