کتاب: رُشدشمارہ 07 - صفحہ 39
خصوصاً قرآنِ کریم میں جس قدر آیاتِ احکام ہیں، ان کی تفسیر وتوضیح میں سنّت سے بے اعتنائی ناممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُمت کی واضح اکثریت کی رائے میں سنّت کو لغت پر ترجیح حاصل ہو گی۔کیونکہ جب نبی کریم کسی لفظ کا مصداق متعین فرما دیں تو پھر دیگر تمام ذرائع بشمول لغوی معنی کے ضرورت باقی نہیں رہتی۔اس لیے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ومما ينبغي أن يُعلم أنّ الألفاظ الموجودة في القرآن والحديث إذا عرف تفسيرها وما أريد بها من جهة النّبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم يحتج في ذلك إلى الاستدلال بأقوال أهل اللّغة ولا غيرهم. ‘‘[1] ’’ جس چیز کا جاننا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں موجو دالفاظ کا مفہوم نبی اکرم کی جانب سے معلوم ہوجائے تو اس میں اہلِ لغت وغیرہ کے اقوال سے استدلال کی حاجت نہیں رہتی۔‘‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ شریعت ان الفاظ کو کبھی مقید استعما ل کرتی ہے، کبھی ان میں عموم او رکبھی تخصیص پیدا کرتی ہے۔امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’والتّحقيق أنّ الشّارع لم ينقلها ولم يغيّرها ولكن استعملها مقيدةً لا مطلقةً كما يستعمل نظائرها كقوله تعالى: ﴿ وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ ﴾ فذكر حجًّا خاصًّا وهو حجّ البيت، وكذلك قوله : ﴿فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ اَوِ اعْتَمَرَ ﴾ فلم يكن لفظ الحجّ متناولًا لكلّ قصد، بل لقصد مخصوص دلّ عليه اللفظ نفسه من غير تغيير اللّغة ... ومعلوم أنّ ذلك الحج المخصوص دلّت عليه الإضافة فكذلك الحجّ المخصوص الّذي أمر اللّٰہ به دلّت عليه الإضافة أو التّعريف باللّام، فإذا قيل: "الحج فرض عليك" كانت لام العهد تبين أنه حجّ البيت. ‘‘[2] ’’ شارع نے لغت میں استعمال ہونے والے الفاظ کو مطلق نہیں بلکہ مقید استعمال کیا ہے ، جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان : ﴿ وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ ﴾ہے۔ اس آیت میں خاص حج کا ذکر کیا او روہ بیت اللہ کا حج ہے۔ اسی طرح فرمان الٰہی ہے: ﴿ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ اَوِ اعْتَمَرَ ﴾تو یہاں لفظِ حج ہر قصد اور ارادے کو شامل نہیں ہے بلکہ یہ خاص قسم کا قصد ہے، لغت میں بغیر کسی تبدیلی کے لفظ خود ہی اس پردلالت کرتا ہے ...مخصوص حج جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اس کو مضاف یا معرف باللّام کے طور پر ذکر کیا گیا۔اگر یہ جملہ ’’الحجّ فرض عليك‘‘ (حج آپ پر فرض ہے)بولا جائے تو لفظ حج پر الف میں لام جو عہد کا ہے واضح کرتا ہے کہ حج سے مراد حج بیت اللہ ہے۔ ‘‘ لغوی اور شرعی معنیٰ متعارِض ہو تو عموماً شرعی معنی کو ہی ترجیح حاصل ہوتی ہے کیونکہ شریعت لغوی معانی یا
[1] مجموع فتاوى ابن تيمية: 7 / 286 [2] مجموع فتاوى ابن تيمية: 7 / 298، 299