کتاب: رُشدشمارہ 07 - صفحہ 38
شواہد تک کو چھان مارا ہے، انہوں نے بھی اپنی تفسیروں میں سنت اور اقوال صحابہ سے اعتناء کیا ہے، بلکہ ان کو مقدّم رکھا ہے اور احادیث اور اقوال صحابہ سے مدد حاصل کی ہے۔ لغوی اور شرعی معنیٰ میں تعارض کی صورت میں معیار سنّت اور لغت دونوں کی تفسیر قرآن میں واضح اہمیت موجود ہے ۔ سنت کی اس لیے کہ وہ قرآن کی تبیین اور تفسیر ہے اور لغت کی اس لیے کہ وہ قرآن کی زبان ہے ۔اس بات میں نہ تو دو رائے ہیں اور نہ ہی ہونے کی توقّع ہے۔ لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ باہمی تعارض کی صورت میں دونوں میں سے ترجیح کسے حاصل ہو گی ؟ اس سلسلے میں علمائے اُمت نے سنتِ نبوی کو قرآن کی شارح کی حیثیت سے تسلیم کیا ہے اور کیوں نہ کیا جائے کہ آیتِ کریمہ ﴿ وَاَنْزَلْنَا اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ﴾[1] میں قرآن کی تبیین کو اہم ترین فریضہ رسالت بتلایا گیا ہے ۔ اس بنا پر علمائے اسلام نے سنتِ نبوی کی تدوین میں خصوصی دلچسپی لی اور اس کی حجیت سے انکار کو در اصل تفسیر بالرّائے کا دروازہ کھولنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ علماء نے ایسے لوگوں کی تردید کرتے ہوئے سنت کی اہمیت کو واضح کیا ہے اورقرآن فہمی کیلئے اس کو لازم قرار دیا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ ’’الرّسالة ‘‘میں لکھتے ہیں: ’’نبی کریمنے جوبھی فیصلہ فرمایا ہے، وہ قرآن سےسمجھ کر ہی صادر فرمایا۔‘‘ [2] اسی بنا پر علماء نے تفسیر قرآن میں قرآن کے بعد سنت کی طرف رجوع کو لازم قرار دیا ہے ۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ قرآن فہمی پر بحث کے دوران لکھتے ہیں: ’’فإن أعياك ذلك فعليك بالسّنة، فإنها شارحة للقرآن وموضّحة له. ‘‘[3] ’’اگر قرآن کی تفسیر قرآن سے نہ ملے تو سنت کی طرف رجوع کیا جائے کیونکہ سنت قرآن کی شارح اور اسے واضح کرنے والی ہے۔ ‘‘ اسی بنا پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( أَلَا إِنِّي أُوتِیتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ )) یعنی: السنّة. [4]
[1] سورة النّحل: 16 : 44 [2] الشافعي، أبو عبد اللّٰہ محمد بن إدريس، الرّسالة: ص91، مكتبة الحلبي، مصر، الطبعة الأولى، 1940م [3] مقدّمة في أصول التّفسیر: ص29 [4] السجستاني، أبو داؤد، سليمان بن الأشعث، سنن أبي داؤد، كتاب السّنة، باب في لزوم السّنة، 3988، قال الألباني: صحيح، انظر صحيح أبي داؤد: 4604، دار السلام للنشر والتوزيع، الرياض، الطبعة الأولى، 1999م