کتاب: رُشدشمارہ 07 - صفحہ 37
بایں ہمہ قواعدِ اعراب وبلاغت سے اس کے معنی ترکیبی پر غور کر لیا جائے اور سیاق وسباق پر نظر ڈالی جائے اور پھر سیاقِ کلام سے معنیٰ متعین کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس ساری تگ ودو کے بعد یہ تفسیر بالرائے ہوگی، یہ معانی اجتہادی ہوں گے اور ان میں اختلاف کی گنجائش ہے، کیونکہ ایک ہی کلمہ لغتِ عرب میں متعدّد معانی کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ جیساکہ بعد میں آنے والوں کو متقدّمین سے کئی مواقع پر اختلاف ہوا۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ ایک جگہ بعض متقدّمین کی لغت عربی سے تفسیر پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اگر اشارات فہمِ حقیقت کیلئے کافی ہیں تو ’’یدین‘‘سے اعوان و انصار کومراد لینا نہایت واضح بات ہے، کیونکہ عرب اعوان وانصار کو ’ید‘ کہتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (( وَهُمْ يَدٌ عَلَىٰ مَنْ سِوَاهُمْ )) کہ وہ غیروں کے بالمقابل ایک دوسرے کے ساتھی ہیں۔ باقی رہا اس سےعلم وعمل کے ہاتھ مراد لینا ، جیسا کہ بعض لوگوں نے کہا ہے، تو میرے نزدیک یہ بالکل لغت کے خلاف اور محض تفسیر بالرّائے ہے۔‘‘ [1] مندرجہ بالا طریق سے جو بھی متعین ہو اس پر نظر ثانی کی جائے کہ کیا یہ تفسیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت وسیرت کے بھی مطابق ہے؟ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور تفسیر صحابہ کے منافی تو نہیں ہے، کونی اور اجتماعی قواعد اور تاریخی حقائق سے کس حد تک مطابقت رکھتی ہے؟ یہ تمام غور وفکر اور مساعی اس لئے ضروری ہیں کہ کتبِ لغت كثير تعداد میں ہیں، ان سے الفاظ کا معنی جلد ہی مل سکتا ہے، وہ قرآنی تصورات کی وضاحت سے بہرحال قاصر ہیں۔ مثلاً کوئی شخص قرآن کے اصطلاحی الفاظ کی تشریح لغت سے تلاش کرنے کی کوشش کرے تو یہ اس کا دماغی خلل ہوگا۔ اور یہ حقیقت ہے کہ جن لوگوں نے محض لغت کے سہارے تفسیر کی کوشش کی ہے، انہوں نے قرآن کا مفہوم متعین کرنے میں ٹھوکریں کھائی ہیں۔ اس کا پہلا نمونہ ابو عبیدہ رحمہ اللہ (متوفیٰ208ھ)کی مجاز القرآن ہے۔ دار اصل علمائے بدعت نے اپنے نظریات کی ترویج کیلئے اس طریق تفسیر کو رواج دیا ہے ورنہ یہ کوئی ایسا مرجع نہیں جس کی مدد سے ہم آیت کا مفہوم متعین کر سکیں۔ ہاں صرف مفردات کی وضاحت کے سلسلہ میں کتبِ لغت کچھ نہ کچھ کام دے سکتی ہیں۔ چنانچہ ابن جریر طبری رحمہ اللہ (متوفیٰ 310ھ) رقمطراز ہیں: ’’مفردات قرآن کے معانی معلوم کرنے کیلئے تو لغت کی طرف رجوع ہو سکتا ہے، مگر کسی آیت کے مفہوم کو متعین کرنے کیلئے بہرحال وحی الٰہی اور سنت کی طرف رجوع سے چارۂ کار نہیں ہے۔‘‘ ان تصریحات کی روشنی میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ مواردِ استعمال کا تتبع کسی حد تک مفرداتِ قرآن کے معانی حل کرنے اور سمجھنے میں تو معاون ہو سکتا ہے اور ہے، تاہم یہ ایسا ذریعہ نہیں کہ تفسیر کے دوسرے سر چشموں سے بے نیاز کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ جن علماء نے تفسیر میں لغت ومحاورات سے استفادہ کیا ہے اور لغوی تشریحات کیلئے
[1] تفسير نظام القرآن: ص590