کتاب: رُشدشمارہ 07 - صفحہ 36
لیکن لغتِ عربی سے استفادہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ صرف وہی شخص اس کو بروئے کار لا سکتا ہے جو عربی زبان میں خصوصی ذوق رکھتا ہو۔ دواوین عرب اسے مستحضر ہوں اور عربی زبان کے اسالیب سے بدرجہ اتم واقفیت رکھتا ہو۔ محض لغات بینی سے کام نہیں چل سکتا، کیونکہ معاجم وقوامیس میں علمائے لغت نے جن اقوال کو جمع کیا ہے، اس میں احتیاط کو ملحوظ نہیں رکھا اور بلا اسناد مختلف اقوال کو جمع کر دیا ہے۔ علمائے ادب جانتے ہیں کہ اشعار کی نسبت میں اختلاط واختلاف کو بے حد دخل ہے اور شاذ ونادر ہی کوئی ایسی روایت ہوتی ہے جس پر اعتماد ہو سکے۔ پھر محاوراتِ عرب کے بیان میں بھی باہم اختلاف ہے اور علمائے لغت نے تشریحات میں عمومی لغت ومحاورہ کو سامنے رکھا ہے۔ خصوصیت کے ساتھ الفاظِ قرآن کی تشریح وتوضیح ان کے پیش نظر نہیں ہوتی۔
اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ لغت قرآن ان کے سامنے ہے اور اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے انہوں نے تشریحات کی ہیں تو پھر بھی احتیاط کی ضرورت ہے، کیونکہ علمائے لغت بھی مختلف مکاتبِ فکر سے تعلّق رکھتے تھے اور ہر ایک مؤلف نے اپنے نقطۂ نظر کے مطابق محاورات کو ڈھالنے کی کوشش کی ہے اور عربی زبان میں یہ لچک بدرجۂ اتم موجود ہے، لہٰذا لغت ومحاورہ سے استفادہ کیلئے چند اُمور کا پیش نظر رہنا نہایت ضروری ہے:
لغت کا تتبع کرتے وقت الفاظِ مفردہ کے صرف اُن معانی کو پیش ِنظر رکھا جائے جو زمانۂ نزول کے وقت سمجھے جاتے تھے اور یہ تبھی ممکن ہے کہ عام لغت سے صرفِ نظر کر کے اولاً لغتِ قرآن وسنت کو سامنے رکھا جائے، پھر عام لغت پر نظر ڈالی جائے۔ چنانچہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ متوفیٰ 728ھ) لکھتے ہیں:
’’ويرجع في ذلك إلى لغة القرآن أو السّنة أو عموم لغة العرب. ‘‘[1]
’’ اس کے لئے سب سے پہلے لغتِ قرآن وسنت یا عام اہلِ عرب کی لغت کی طرف رجوع کیا جائے گا۔‘‘
ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
’’والقرآن نزل بلغة قريش الموجودة في القرآن، فإنها تفسير بلغته المعروفة فيه إذ وُجدت لا يُعدَل عن لغته المعروفة مع وجودها وإنما يحتاج إلى غير لغته في لفظ لم يوجد له نظير في القرآن. ‘‘[2]
’’ قرآن قریش کی زبان میں نازل ہوا جو قرآن میں موجود ہے۔ اس کی اسی معروف لغت کے مطابق تفسیر کرنا ضروری ہے۔اگر کوئی لفظ اس میں موجود پایا جائے تو اس کی معروف لغت سے انحراف کرنا درست نہیں۔ دوسری لغات کی طرف تب رجوع کیا جائے گا، جب اس کی نظیر قرآن میں نہ ملتی ہو۔‘‘
[1] ابن تيمية، أحمد بن عبد الحليم، مقدّمة في أصول التفسير: ص35، دار مكتبة الحياة، بيروت، الطبعة الأولى، 1980م
[2] ابن تيمية، أحمد بن عبد الحليم، مجموع الفتاوى: 15/88، مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف، المدينة النبوية، السعودية، الطبعة الأولى، 2003م