کتاب: رُشدشمارہ 07 - صفحہ 35
الشّجرةاور النّخلة‘‘وغیرہ۔یہ لفظ کے اصل معنی سے نکل جانا نہیں ہے، بلکہ جس طرح مظروف بول کر ظرف مراد لیتے ہیں، اسی طرح لفظ کے مختلف پہلوؤں میں سے کسی ایک پہلو کو خاص کرتے ہیں۔
لفظ ’التّین‘ کو مشہور شاعر نابغہ ذبیانی (متوفیٰ 405ھ) نے اپنے اشعار میں استعمال کرکے اس سے شمال کا ایک پہاڑ مراد لیا ہے:
وَهَّبَتِ الرّیحُ مِنْ تِلْقَاءِ ذِي أُرُلٍ تُزْجِي مَعَ اللَّیْلِ مِن صُرَّادِهَا صِرَمَا
صُهْبَ الظَّلَالِ أَتَيْنَ التّينَ عَنْ عُرُضٍ يُزْجِينَ غَيْمًا قليلًا مَاؤُه شَبِمَا[1]
’’ ہوا جبل اُرل کی جانب سے رواں ہوئی، وہ رات کے وقت ان بادل کے ٹکڑوں کو لے کر چلتی ہے، جن میں پانی نہیں ہے۔ ہوائیں سرخ رنگ کے بادلوں کو لے کر ’تین‘ کے بے پناہ طول و عرض سے گزرتی ہیں، ہلکے بادلوں کو ہنکائے پھرتی ہیں جن کا پانی نہایت ٹھنڈا ہے۔‘‘
اس شعر میں نابغہ شمالی ٹھنڈی ہواؤں کا ذکر کرتا ہے جوموسم سرما کے ہلکے بادلوں کو جبل تین کے پاس ہنکائی پھرتی ہے ، جن سے ٹھنڈک بڑھتی جاتی ہے، عرب شمالی ہواؤں کے چلنے کا اکثر ذکر کرتے ہیں اور کوہ جودل تو سردی اور ٹھنڈک کا خاص مرکز ہے۔ [2]
لغت سے استدلال کا دائرہ کار ، مولانا فراہی کے موقف کے تناظر میں
اگر کسی آیت کے مفہوم پر کتاب وسنت اور اقوال ِ صحابہ سے روشنی نہ پڑتی ہو اور تابعین بھی اس کی تاویل میں مختلف ہوں تو پھر لغت عرب اور محاورات کی طرف رجوع ہوگا، کیونکہ قرآن فہمی کے سلسلہ میں خود صحابہ کرام اس اصل سے استفادہ کرتے رہے ہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
’’الشّعر ديوان العرب، فإذا خفي علينا الحرف من القرآن الذي أنزله اللّٰہ بلغة العرب رجعنا إلى ديوانها فالتمسنا معرفة ذلك منه. ‘‘[3]
’’ شعر اہل عرب کا دیوان ہے، جب ہم پر قرآنِ کریم، جسے اللہ تعالیٰ نےعربی زبان میں اتارا ہے، کا کوئی لفظ مخفی ہو جائے تو اس دیوان کی طرف رجوع کریں گے اور اس لفظ کا معنیٰ وہاں سے تلاش کریں گے۔‘‘
[1] الزمخشري، أبو القاسم محمود بن عمرو، أساسُ البلاغة:1/546، دار الكتب العلمية، بيروت، الطبعة الأولى، 1998م
[2] تفسير نظام القرآن: ص344 ۔ 346
[3] السيوطي، عبد الرحمن بن أبي بكر ، الإتقان في علوم القرآن: 2/67، الهيئة المصرية، العامة للكتاب، الطبعة الأولى، 1974م