کتاب: رُشدشمارہ 07 - صفحہ 34
آیتِ کریمہ ﴿ مِّثْلَ مَا اَنَّكُمْ تَنْطِقُوْنَ﴾ [1]پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’’نطق‘ نفس کے اندر سب سے راسخ چیز ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ انسان کی فطرت کے اندر داخل اور اس کے خواص میں ہے۔ انسان کی تعریف ہی حیوانِ ناطق سے کی گئی ہے۔ اس حقیقت سے دورِجاہلیت میں عرب بھی اچھی طرح واقف تھے۔
مرقش اکبر کا شعر اس سلسلہ میں ملاحظہ ہو:
هَلْ بِالدّیَارِ أَن تُجِیبَ صَمَمْ لَوْ أَنّ حَیًّا نَاطِقًا کَلَّمْ[2]
’’ کیا کھنڈرات بہادر شخص (کی باتوں کا) جواب دینگے؟ کاش کے یہ اجڑے ہوئے محلّات بات کرتے اور گفتگو کرتے۔‘‘ [3]
آیتِ کریمہ ﴿ اَوْلٰى لَكَ فَاَوْلٰى٭ثُمَّ اَوْلٰى لَكَ فَاَوْلٰى﴾[4] میں لفظ ﴿ اَوْلٰى ﴾ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جس طرح ویل کالفظ جھڑکی اور غصہ کیلئے آتا ہے اسی طرح ﴿ اَوْلٰى ﴾ کا لفظ اظہار حسرت کے لئے آتا ہے۔ خنساء(44ھ) کا شعر ہے:
هَمَمْتُ بِنَفْسِيَ کُلَّ الْهُمُومِ فَأَوْلَىٰ لِنَفْسِيَ أَوْلَىٰ لَهَا[5]
’’ جب پورے طور سے میں نے اپنے آپ کا جائزہ لیا تو اپنی ذات پر کفِ افسوس ملتا رہا۔‘‘ [6]
عام مفسرین کے نقطۂ نظر سے ہٹ کر لفظ ’’التّین‘‘ اور ’’الزّیتون‘‘ سے مولانا فراہی رحمہ اللہ نے دو مقام مراد لئے ہیں، اس ضمن میں مولانا نے بڑی تفصیلی بحث کی ہے۔لیکن اس سے قطع نظر کرتے ہوئے، یہاں صرف چند ضروری اُمور پر اکتفاء کیا جائے گا۔ مولانا فرماتے ہیں کہ ’’التّین‘‘ایک خاص مقام کا نام ہے۔ عرب اسے اسی نام سے جانتے تھے۔ عربوں کے یہاں یہ قاعدہ عام ہے کہ جو چیز جہاں کثرت سے پیدا ہوتی ہے، اسے اسی نام سے منسوب کردیتے ہیں چونکہ یہاں انجیر کی پیداوار کثرت سے تھی اس لئے اسی سے منسوب کردیا، مثلاً ’’الغضى،
[1] سورة الذّاريات: 51 : 23
[2] المطفي، عبد العظيم إبراهيم، خصائص التعبير القرآني وسماته البلاغية: 1/77، مكتبة وهبة، الطبعة الأولى، 1992م
[3] تفسير نظام القرآن: ص138- 139
[4] سورة القيامة: 75 : 34، 35
[5] المبرد، حمد بن يزيد، الكامل في اللّغة والأدب: 4 / 43 ، دار الفكر العربي، القاهرة، الطبعة الثالة، 1997م
[6] تفسير نظام القرآن: ص216