کتاب: رُشدشمارہ 07 - صفحہ 33
اس تفصیل سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ زیرِ نظر آیات میں مذکورہ صفات ایک ہی چیز سے متعلّق ہیں نہ کہ علیحدہ علیحدہ، جیسا کہ ابن زيّابہ کے شعر میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ يَا لَهْفَ زَيَّابَةَ لِلْحَارِثِ الصَّ ابِحِ فَالغَانِمِ فَالآيبِ[1] ’’ زيابہ کی طرف سے حارث پر افسوس ہے جس نے غارت گری کی، مال غنیمت لوٹا اور لوٹ گیا۔‘‘ [2] آیتِ کریمہ ﴿ وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الْحُبُكِ﴾ [3]پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’یہ لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اس کا ایک مفہوم بادل بھی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے: ﴿ وَ قِيْلَ يٰاَرْضُ ابْلَعِيْ مَآءَكِ وَ يٰسَمَآءُ اَقْلِعِيْ ﴾[4] کہ اے زمین اپنا پانی جذب کرلے اور اے آسمان (بادل) تھم جا۔ اس آیت میں ﴿ وَ السَّمَآءِ ﴾سے مراد مولانا فراہی رحمہ اللہ کے نزدیک بادل ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اوپر ہواؤں کی قسم کھائی گئی ہے۔ ہواؤں اور بادلوں کی مناسبت ظاہر ہے۔ قرآن کریم میں متعدّد مواقع پر دونوں کاذکر ساتھ ساتھ ہوا ہے۔ دوسری وجہ یہ بتاتے ہیں کہ مقسم بہ کی مناسبت اسی مفہوم کی طرف اشارہ کرتی ہے، اور ﴿ ذَاتِ الْحُبُكِ﴾کی صفت بھی اسی مفہوم کو ترجیح دینے کے حق میں ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ ’حَبَكَ‘ کے معنی باندھنے اور گرہ لگانے کے ہیں۔ یہیں سے یہ اس مضبوطی اور استواری کیلئے استعمال ہونے لگا جو کسی چیز کی بناوٹ میں پیدا کی جائے۔ اسی سے ’حباك‘ ہے جس کی جمع ’’حبك‘‘آتی ہے۔ ’’حباك‘‘ ان دھاریوں، شکنوں اور لہروں کو کہتے ہیں جو کسی نقش اور مضبوط بناوٹ کے کپڑے میں نمایاں کی گئی ہوں۔ زہیر بن ابی سلمہ نے اپنے شعر میں اس چشمے کا نقشہ کھینچا ہے جس پر گزرنے والی ہواؤں نے اس میں لہریں پیدا کردی ہیں: مُكَلَّلٌ بِأُصُولِ النَّبْتِ تَنْسِجُهُ رِيحٌ خَرِيقٌ لِضَاحِي مَائِهِ حُبُكُ[5] ’’نباتات کا نچلا حصہ اسکا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ جب تند و تیز ہوا اسپر گزرتی ہے تو اسکی اوپری سطح پر لہریں نمودار ہوجاتی ہیں۔‘‘ [6]
[1] الكشاف: 1/41 [2] تفسير نظام القرآن: ص121 [3] سورة الذّاريات: 51 : 7 [4] سورة هود: 11 : 44 [5] الأزدي، أبو بكر محمد بن الحسن، جمهرة اللغة: 1/283، دار العلم للملايين، بيروت، الطبعة الأولى، 1987م [6] تفسير نظام القرآن: ص123، 124