کتاب: رُشدشمارہ 07 - صفحہ 31
ان کا اللہ سے نہایت عاجزی کے ساتھ طالبِ عفو ہونا اور اللہ کی طرف سے دُعا کا قبول ہونا، یہ ساری باتیں واقعہ کی تکمیل کے بعدکی ہیں۔ حالانکہ اس میں شک نہیں کہ سیدنا نوح کی دُعا بیٹے کی غرقابی اور جودیّ پہاڑ پر کشتی کے ٹکنے سے پہلے کی ہے۔ لیکن اگر واقعہ کی تفصیل میں ترتیبِ زمانی کا لحاظ کیا جاتا اور تقدیم و تاخیر سے کام نہ لیا جاتا تو تصویر کے اجزاء بکھر جاتے اور واقعہ کا پورا نقشہ نگاہوں کے سامنے نہیں آ سکتا تھا۔‘‘ مزید فرماتے ہیں: ’’ثم انظر كيف أدمج القصّة في خمس آيات وجعل الخمس الباقية لدُعاء نوح والبركة فجمع القصّة في آيات عشر وجعلها صورتين كاملتين أحدهما بجنب الثانية، فهذا هو الوجه الصّحيح للتّقديم والتأخير، ثم من أحسن البيان فيه أن هلاك ابنه صور بغتة وفي أسرع حالة ومع ذلك هو أبين تصويرًا.‘‘[1] ’’ اس واقعہ پر غور کرو کہ اللہ تعالیٰ نے صرف پانچ آیات میں پورے واقعہ کو سمیٹ دیا ہے۔ بقیہ پانچ آیات میں سیدنا نوح کی دُعا اور اس کی برکتوں کا تذکرہ ہے۔ اس طرح دس آیات میں پورا واقعہ دو کامل ترین مناظر کے ساتھ ایک دوسرے کے پہلو میں جلوہ گر نظر آتا ہے۔ یہ ہے تقدیم اور تاخیر کا صحیح رُخ۔ اور حُسنِ بیان اور اعجازِ قرآن کا کمال یہ ہے کہ ایک ہی لمحہ میں نہایت سُرعت کے ساتھ بیٹے کی ہلاکت کو بیان کیا گیا ہے، لیکن پھر بھی واقعہ کی تصویر نہایت مکمل اور حد درجہ واضح اور روشن ہے۔‘‘ کلامِ عرب سے استشہاد مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ کی پوری زندگی قرآنِ کریم کے مختلف پہلوؤں پرتفکر و تدبّر کرتے ہوئے گزری، ان کی زندگی کا مرکز ومحور یہی الہامی کتاب تھی لہٰذا ان کی تمام تر علمی تحقیقات اور فکری کاوشیں اسی کے گرد گھومتی ہیں۔ انہوں نے قرآنی علوم کو سمجھنے کے لیے کچھ اصول منضبط کیے تھے اور ان کی روشنی میں قرآنِ کریم کی تفسیر لکھنا چاہتے تھے۔ گو مولانا کو اتنی مہلتِ حیات تو نہیں ملی کہ وہ اس عظیم کام کو مکمل کرسکتے البتہ چند سورتوں کی تفسیر لکھ کر انہوں نے اس طرزِ تفسیر کا ایک نمونہ ضرور فراہم کر دیا۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ کے تفسیری اجزاء متعدّد خصوصیات کے حامل ہیں۔ لیکن ان میں دو خصوصیتیں ایسی ہیں جنہیں ان کا نشانِ امتیاز قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایک تو ان کے اُصولِ تفسیر کے مطابق قرآنِ کریم کی تمام آیات وسور باہم مربوط ومنظّم ہیں، اس حد تک کہ اگر ایک آیت یا ایک جملہ کو اپنی جگہ سے ہٹا دیا جائے تو پورا نظام درہم برہم ہوجائے۔ مولانا کی تفسیر کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ قرآن کریم کے اسالیب، معانی ومفاہیم اور زبان وبیان کی تفہیم وتشریح کیلئے وہ کلامِ عرب کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔قرآنِ کریم کا نزول سرزمین حجاز اور عربوں کی زبان میں
[1] جمهرة البلاغة: ص64