کتاب: رُشدشمارہ 07 - صفحہ 30
في کل موضع، کما قال تعالى:﴿ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ وَ مِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ وَ مِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰهِ ﴾ وتری المفسّرین کثیرًا أنهم يقولون: هذا تقديم ما حقّه التأخير. وإني لا أحبّ هذا القول، وکل موضع ذهبوا فيه إلى هذا القول لم أجد أمرًا خلاف ما حقّه. ‘‘[1]
’’ یہ بات جان لوکہ ترتیبِ کلام کے مختلف پہلو ہوتے ہیں۔ عبارت میں کسی جزء کا مقدم یا مؤخر ہونا مختلف وجوہ کےتحت ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ جو چیز مقدم ہو لازماً وہ ہر جگہ سب سے افضل ہی ہو۔ جیسا کہ آیتِ کریمہ میں ہے: ﴿ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ وَ مِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ وَ مِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰهِ ﴾ کہ ان میں سے کچھ اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے ہیں، کچھ میانہ رو ہیں اور کچھ اللہ کی توفیق سے بھلائیوں میں سبقت کرنے والے ہیں۔ لیکن تم اکثر مفسرین کو دیکھتے ہو وہ کہتے ہیں کہ عبارت میں اس کو مؤخّر ہونا چاہئے تھا لیکن مقدم ہوگیا۔ مجھے یہ بات پسند نہیں ہے، جہاں بھی انہوں نے اس طرح کا خیال ظاہر کیا ہے وہاں کسی امر کو میں نے اس کے برخلاف نہیں پایا جہاں اسے ہونا چاہئے۔‘‘
دیگر ائمہ تفسیر بھی تقدیم وتاخیر کے قائل ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ معذرت خواہانہ انداز میں کہتے ہیں کہ یہ مقدم تو ہو گیا ہے لیکن اسے مؤخر ہونا چاہئے تھا۔ ان کے نزدیک تقدیم وتاخیر گویا ایک طرح کا عیب ہے جسے دور کرنے کیلئے یہ اصطلاح وضع کی گئی ہے۔
لیکن مولانا فراہی رحمہ اللہ بڑی بلند آہنگی سے کہتے ہیں کہ قرآنِ مجید میں جو مقدم ہے، اس کا مقدم ہونا حق ہے اور جو مؤخر ہے اسے مؤخر ہونا چاہئے۔ اگر مقدم کو مؤخّر اور مؤخر کو مقدّم کر دیا جائے تو کلام کی تاثیر اور زور بیان، عبارت کی رعنائی و دل کشی اور جملہ کا حسن وجمال غارت ہو کر رہ جائے گا۔
مولانا فراہی رحمہ اللہ نے اپنے اس نقطۂ نظر کو ’’جمہرۃ البلاغۃ‘‘ میں تفصیل سے واضح کیا ہے۔ ’’دلالۃ الوصل‘‘ کے زیر عنوان فرماتے ہیں:
’’ومن هذا الباب ما یراد فيه الاتّصال والفصل لأجل التّصویر للواقعة، ومثاله في قصّة نوح فإن دعاء نوح في ابنه وردّه من اللّٰہ تعالى واستغفار نوح والاستجابة کل ذلك جاء متأخّرا بعد تمام الواقعة، ولا شكّ أن سؤال نوح في ابنه کان قبل غرقه وقبل استواء الفلك على الجوديّ فلو وضع هذه الأمور في محلّها الزّماني لتباعدت أجزاء التّصویر ولم یتّضح. ‘‘‘[2]
’’ اسی باب میں وہ اسلوب بھی داخل ہے جس میں اتصال اور انفصال کو پورے واقعہ کی تصویر کشی کیلئے لایا جاتا ہے، اس کی مثال سیدنا نوح کا قصّہ ہے، کیونکہ نوح کا بیٹے کیلئے دُعا کرنا اور اس کا ردّ ہونا اور پھر
[1] أساليب القرآن: ص49
[2] جمهرة البلاغة: ص64