کتاب: رُشدشمارہ 07 - صفحہ 29
ہے جو مولانا فراہی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے۔ البتہ مولانا اسے کلامِ عرب اور قرآنِ مجید کے معروف اسلوب کے طور پر پیش کرتے ہیں، جبکہ دوسرے مفسرین اسے کہیں کہیں نظر انداز کر جاتے ہیں۔ مثلاً سورۂ آل عمران کی آیتِ کریمہ:﴿ اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بَعْدَ اِيْمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوْا كُفْرًا لَّنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ﴾[1] میں ﴿ لَّنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ﴾ کی تفسیر میں مفسرین کے مختلف اقوال درج ذیل ہیں:
1۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما : ان کی توبہ اس لیے نہیں قبول کی جائے گی کہ انہوں نے ارتدادکی روش اختیار کی اور لوگوں کو صرف دکھانے کے لیےتوبہ کا اظہار کیا ، حالانکہ کفر ان کے دلوں میں راسخ ہوچکا تھا۔
2۔ ابوالعالیۃ: چونکہ انہوں نے شرک کی آلائشوں میں رہتے ہوئے توبہ کی، اس لیے ان کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔
3۔ حسن بصری، قتادہ، عطاء الخراسانی اور سدی کا خیال ہے کہ جو لوگ موت کے فرشتے دیکھنے کے بعد توبہ کریں گے، ان کی توبہ قبول نہیں ہوگی۔
4۔ مجاہد: موت کےبعد ان کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی، کیونکہ انہوں نے حالتِ کفر میں جان دی ہے۔ [2]
جیسا کہ مفسرین کے اقوال سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تمام کے تمام اس پر متفق ہیں کہ وہ لوگ توبہ کریں گے البتہ مختلف وجوہات کی بنیاد پر بارگاہ خداوندی میں، ان کی توبہ شرف قبولیت سے ہمکنار نہیں ہوسکتی۔
مولانا فراہی رحمہ اللہ نے نفی کا جو اسلوب کلامِ عرب اور قرآنِ مجید کی روشنی میں پیش کیا ہے، اس کو اگر سامنے رکھا جائے تو مذکورہ آیت کا یہ ٹکڑا بھی ’’نفي الشّيء بلازمه ‘‘کی مثال ہے۔اس کا مطلب یہ ہوگا کہ چونکہ وہ کفر و انکار اور بغاوت و سرکشی کی حدوں سے تجاوز کرچکے ہیں اور اس میں آگے ہی بڑھتے جا رہے ہیں، اب ان میں حق و انصاف اور ایمان و اسلام کی ذرہ برابر بھی رمق نہیں ہے، اس لیے یہ ہرگز توبہ کر کے اپنی زندگی سدھار ہی نہیں سکتے۔ گویا ﴿ لَّنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ﴾ کا مفہوم یہ ہوگا کہ وہ ہرگز توبہ نہیں کریں گے کہ ان کی توبہ قبول کرنے کا سوال پیدا ہو۔ [3]
4۔ تقدیم و تاخیر
مولانا فراہی رحمہ اللہ قرآنی اسلوب کے اس پہلو پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتےہیں:
’’فاعلم أن التّرتیب یکون على أنحاء شتى، والشيء یقدّم ویؤخّر لوجوه، ولیس أن المقدّم أفضل
[1] سورة آل عمران: 3 : 90
[2] ابن أبي حاتم، أبو محمد عبد الرحمن بن محمد، تفسير القرآن العظيم لابن أبي حاتم: 2/ 702 ، مكتبة نزار مصطفى الباز، المملكة العربية السعودية، الطبعة الثالثة، 1419ھ
[3] حیات وافکار: ص398