کتاب: رُشدشمارہ 07 - صفحہ 28
تشبیہ یا استعارہ نہیں بلکہ حذف کی ایک انتہائی اعلیٰ مثال قرار دیتے ہیں۔
اسی طرح اس کی ایک مثال سورۂ طٰہ میں آیتِ کریمہ: ﴿ قَالَ يٰهٰرُوْنُ مَا مَنَعَكَ اِذْ رَاَيْتَهُمْ ضَلُّوْا٭اَلَّا تَتَّبِعَنِ اَفَعَصَيْتَ اَمْرِيْ﴾ [1]ہے، عام مفسرین نے یہاں’لا‘ کو زائد قرار دیا ہے۔[2] جبکہ مولانا فراہی رحمہ اللہ کے نزدیک یہاں بھی حذف ہے، اسے کھولیں تو عبارت یہ بنتی ہے: قَالَ يٰهٰرُونُ مَا مَنَعَكَ إِذْ رَأَيْتَهُمْ ضَلُّوا ٭ أَن تَتَّبِعَنِ وَأَمْرُكَ أَلَّا تَتَّبِعَنِ أَفَعَصَيْتَ أَمْرِي. [3]
3۔ نفی
قرآنِ کریم کا ایک اہم اسلوب نفی بھی ہے۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ نے اس اسلوب کی کچھ مثالیں پیش کی ہیں۔ جن سے ایک نفي الشّيء بلازمه کی مثال بھی ہے۔[4] اس اسلوب کی تائید میں مولانا نے کلامِ عرب سے امرؤ القیس کےایک شعر کا یہ مصرعہ نقل کیا ہے:
’’عَلَىٰ لَاحِبٍ لَا يُهْتَدَىٰ بِمَنَارِهِ‘‘ [5]
’’ اس راستے پر آہ و فغاں نہ کر جس کے میناروں کی روشنی سے رہنمائی نہیں حاصل کی جا سکتی۔‘‘
مطلب یہ کہ یہاں کسی مینارۂ نور کا وجود ہی نہیں ہے کہ اس سے روشنی حاصل کرنے کا سوال پیدا ہو۔ یہی اسلوب قرآن کریم اس آیتِ کریمہ میں بھی ہے: ﴿قُلْ اَتُنَبِّٔوْنَ اللّٰهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِي الْاَرْضِ﴾[6] اس آیتِ کریمہ میں ﴿ لَا يَعْلَمُ ﴾ کا مفہوم یہ ہے کہ اس شے کا وجود ہی نہیں ہے، کیونکہ اگر اس کا وجود ہوتا تو اللہ جل جلالہ کو ضرور اس کا علم ہوتا۔ [7]
مولانا فراہی رحمہ اللہ کا پیش کردہ اُصول گو نادر نہیں ہے کیونکہ عموماً مفسرین نے ان آیات کامفہوم وہی بیان کیا
[1] سورة طه: 20 : 92
[2] الثعلبي، أحمد بن محمد بن إبراهيم، الكشف والبيان عن تفسير القرآن: 6/258 ، دار إحياء التراث العربي، بيروت، الطبعة الأولى، 2002م
[3] حیات وافکار: ص395
[4] أساليب القرآن: ص43
[5] درويش، محي الدين بن أحمد، إعراب القرآن وبيانه: 1/426، دار اليمامة، دمشق، بيروت، الطبعة الرابعة، 1415ھ مکمل شعر اس طرح ہے: عَلَىٰ لَاحِبٍ لَا يُهْتَدَىٰ بِمَنَارِهِ ٭ إِذَا سَافَهُ الْعَوْدُ الدّيَافِي جَرْجَرَا (ديوان امرئ القيس: 1 / 20 ؛ معجم مقاييس اللغة: 2 / 261)
[6] سورة يونس: 10 : 18
[7] أساليب القرآن: ص43