کتاب: رُشدشمارہ 07 - صفحہ 27
کے خیالات کی ایک جھلک واضح کرنے کیلئے ذیل میں چند مثالیں ذکر کی جاتی ہیں۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ اپنی بلند پایہ کتاب ’جمہرۃ البلاغۃ‘ میں اصولِ حذف پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ومن الحذف الذي یتّصل بالنحو ولم يهتد إليه النحويّون فمنه الحذف من المعطوف بعض ما في المعطوف عليه وبالعكس. ‘‘[1]
’’حذف کی بعض مثالیں وہ ہیں جن کا تعلق علم نحو سے ہے لیکن عموماً نحویوں کی رسائی وہاں تک نہیں ہوسکی، جیسے معطوف سے اس جزء کو حذف کر دینا جو معطوف علیہ میں ہو اور اس کے برعکس بھی۔‘‘
مثلاً آیتِ کریمہ: ﴿ وَ يُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهٖ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ مِنْ خِيْفَتِه﴾ [2]میں مذکورہ اسلوب استعمال کیا گیا ہے۔ اسے کھول دیجئے تو عبارت یوں بنے گی: ﴿وَیُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِه مِنْ خِیفَتِهِ وَالْـمَلَائِکَةُ تَحْمَدُهُ مِنْ خِیفَتِه﴾ِ اسی طرح آیت كريمہ: ﴿ قِيْلَ يٰنُوْحُ اهْبِطْ بِسَلٰمٍ مِّنَّا وَ بَرَكٰتٍ عَلَيْكَ ﴾[3] میں حذف کھولیے تو گویا پوری عبارت یوں بنے گی: ((قِیلَ یٰنُوحُ اهْبِطْ بِسَلٰمٍ مِنَّا عَلَيْكَ وَبَرَکٰتٍ مِنَّا عَلَیْكَ))
ان دونوں آیتوں میں حذف کی مثالیں بالکل واضح ہیں لیکن مولانا فراہی رحمہ الہل کے علاوہ کسی نے بھی اس کی نشاندہی نہیں کی ہے۔ حالانکہ مولانا کے بقول یہ حذف کی مثالیں بالکل اسی طرح ہیں جس طرح ذَهَبَ زَیْدٌ وَعَمْرٌو میں ’زید‘ کے بعد ذَهَبَ فعل اور صَلَّىٰ زَیْدٌ وَصَامَ میں صَامَ کا فاعل ’زید‘ حذف ہوگیا ہے۔ [4]
مولانا فراہی« نے حذف کے اُصول اور مواقع کو سب سے زیادہ اپنی کتاب ’اسالیب القرآن‘ میں بیان فرمایا ہے اور تقریباً پندرہ اصول پیش کر کے اس اسلوب پر مفصّل روشنی ڈالی ہے۔ ان میں سے ایک مثال مولانا کے مؤقف کو واضح کرنے کیلئے حسبِ ذیل ہے، فرماتے ہیں:
’’منها حذف جانبين من المتقابلين لما دلّ عليه مقابله، كما قال تعالى: ﴿ فَاَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَ الْخَوْفِ ﴾ أي: أَذَاقَهَا اللّٰہ طَعْمَ الْجُوعِ وَأَلْبَسَهَا لِبَاسَ الْخَوْفِ. ‘‘[5]
یہاں دونوں مقابل کے ایک ایک پہلو کو ایک دوسرے کی دلیل کے تحت حذف کر دیا گیا ہے۔ عام طور پر مفسرین نے اس آیت کریمہ میں اس اسلوب کو استعارہ یا تشبیہ قرار دیا ہے۔[6] جبکہ مولانا فراہی رحمہ اللہ اسے
[1] الفراهي، أبو أحمد عبد الحميد، جمهرة البلاغة: ص68، الدائرة الحميدية، مدرسة الإصلاح، سرائي مير اعظم كره
[2] سورة الرّعد: 13 : 13
[3] سورة هود: 11 : 48
[4] جمهرة البلاغة: ص68
[5] أساليب القرآن: ص29
[6] الزمخشري، أبو القاسم محمود بن عمرو، لكشّاف: 2/346، دار الكتب العربي، بيروت، الطبعة الثالثة، 1407ھ