کتاب: رُشدشمارہ 07 - صفحہ 26
اس اہم اسلوب کی وضاحت اسی سورت کی ایک اور آیت سے ہوتی ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِيْنَ يَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَ لْيَجِدُوْا فِيْكُمْ غِلْظَةً ﴾[1] اس آیتِ کریمہ میں ﴿ مِّنَ الْكُفَّارِ ﴾ کی تاویل میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں: 1. اس سے مراد رومی ہیں۔ 2. اس سےمراد فریضہ، نضیر اور خیبر کے یہود ہیں۔ 3. دیلم مراد ہیں۔ 4. عرب کے مشرکین ہیں۔ 5. اس میں کوئی گروہ مراد نہیں ہے بلکہ اقرب فالاقرب کےاصول پر تمام ہی مشرکین سےجنگ کی جائے گی۔ [2]
اس آیت کریمہ کی تاویل اگر مولانا فراہی رحمہ اللہ کےاصول کی روشنی میں کی جائے تو مراد واضح ہوجاتی ہے کہ اس آیت میں ﴿ مِّنَ الْكُفَّارِ﴾، ﴿ الَّذِيْنَ﴾ کا بیان ہے اور اس سے مراد منافقین ہیں۔ ﴿ وَ لْيَجِدُوْا فِيْكُمْ غِلْظَةً﴾، ﴿ قَاتِلُوا ﴾ کی وضاحت ہے۔ ﴿ يَلُوْنَكُمْ ﴾ کا لفظ معاشرتی اعتبار سے مسلمانوں اور منافقین کے قریبی تعلّق کی تصویر پیش کر رہا ہے۔
مولانا فراہی رحمہ اللہ کے مطابق آیتِ کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ یہاں مخلص اہل ایمان سے یہ کہا جا رہا ہے کہ تم سب سےزیادہ منافقین سے چوکنے رہو، ان کا معاشرتی بائیکاٹ کرو، ان کے ساتھ نرمی، ہمدردی اور ملاطفت کا رویہ نہ اپناؤ، کیونکہ یہ آستین کے سانپ ہیں۔ یہ رہتے تو ہیں تم سب سے بہت قریب، لیکن ہمیشہ تمہیں نقصان پہنچانے کےلیےکسی مناسب وقت کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔آیت کی یہ تاویل اس سورہ کے تفصیلی مضمون، سیاق و سباق اور نظم کلام سے بھی واضح طور پر مربوط اور ہم آہنگ ہو جاتی ہے۔ [3]
2۔ حذف
اسالیب القرآن کے اُصولوں میں سےایک اہم اصول حذف بھی ہے۔ عام طورپر مفسرین اور نحوی حضرات حذف کے قائل تو ہیں، لیکن بعض مواقع کو چھوڑ کر حذف کو کلام کی ایک خامی تصورکرتے ہیں۔مولانا فراہی رحمہ اللہ کے نزدیک حذف کا قاعدہ دُنیا کی تمام زبانوں میں پایا جاتا ہے، البتہ عرب اپنی فطری ذہانت وطباعی کی وجہ سے حذف کے معاملے میں تمام دُنیا سے ممتاز اور نمایاں ہیں۔ وہ کلام کے ان اجزاء کو جنہیں مخاطب بادنیٰ تامّل سمجھ جائے، بے تکلّف حذف کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک کلام کا اعلیٰ معیار یہی ہے کہ وہ حشو و زوائدسے پاک ہو۔ مولانا نے اس سلسلے میں کلامِ عرب اور قرآنِ مجید سے بہت سے شواہد پیش کیے ہیں، جو مولانا کی اصولِ تفسیر پر لکھی کتابوں مثلاً ’’التکمیل في أصول التأویل ‘‘میں اجمالًا اور ’’أسالیب القرآن‘‘ اور ’’جمهرة البلاغة‘‘ میں تفصیلًا موجود ہیں۔ مولانا
[1] سورة التّوبة: 9 : 123
[2] جامع البيان: 14 / 575، 576
[3] فراہی، حمید الدین، علامہ، حیات وافکار: ص391، مرتب عبید اللہ فراہی، انجمن مدرسۃ الاصلاح، اعظم گڑھ، 1992ء