کتاب: رُشدشمارہ 07 - صفحہ 24
گوشت ہیں۔ شاہ عبد القادر دہلوی رحمہ اللہ (متوفیٰ 1814ھ) نے آیت کریمہ ﴿ نَزَّاعَةً لِّلشَّوٰى﴾[1] کے ترجمہ میں اس سے مراد کلیجہ لیا ہے حالانکہ اگر سیاقِ کلام کو مدنظر رکھا جائے تو موقع منکرین کے دوزخ میں داخل ہونے کا نہیں بلکہ عذاب کے قرب کے تذکرہ کا ہے ...جن لوگوں نے ﴿ لِّلشَّوٰى ﴾ کو سر کی کھال کے معنی میں لیا ہے انہوں نے بھی غلطی کی ہے ۔ اس معنی میں یہ لفظ بہت کم آیا ہے وہاں بھی اس کے معروف معنیٰ ہی کا احتمال موجود ہے ۔ پھر قرآن و حدیث میں آگ کی اس کیفیت کا ذکر نہیں آیا کہ وہ بالکل اوپر سے سر کی کھال اڑا لے جائے گی۔ بالفرض اگر یہ دونوں معنی برابر قرار دیے جائیں، تب بھی ان میں سے وہی اختیار کیا جائے گا جو نظم سے زیادہ موافقت رکھتا ہو اور باقی قرآن سے بھی اس کے دلائل ملتے ہوں ۔ [2] حروف مقطعات حروفِ مقطعات سے متعلّق علمائے کرام کی مختلف آراء سامنے آئی ہیں۔ تا ہم اس سلسلہ میں مولانا فراہی رحمہ اللہ کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ عربی زبان کے حروف عبرانی سے لیے گئے ہیں اور عبرانی کے یہ حروف ان حروف سے ماخوذ ہیں جو عرب قدیم میں رائج تھے۔ یہ حروف آواز کے ساتھ معانی اور اشیاء پر بھی دلیل ہوتے تھے اور جن معانی یا اشیاء پر وہ دلیل ہوتے تھے عموماً انہی کی صورت اور ہیئت پر لکھے بھی جاتے تھے۔ ان حروف کےمعانی کا علم اب اگرچہ مٹ چکا ہے، تاہم بعض حروف کے معنی اب بھی معلوم ہیں اور ان کے لکھنے کے ڈھنگ میں بھی ان کی قدیم شکل کی کچھ نہ کچھ جھلک پائی جاتی ہے۔ مثلاً ’الف‘کے متعلق معلوم ہے کہ وہ گائے کے معنی بتاتا تھا اور گائے کے سر کی صورت پر ہی لکھا جاتا تھا۔ ’م‘ پانی کی لہر پر ہی دلیل ہوتا تھااور اس کی شکل بھی لہر سے ملتی جلتی بنائی جاتی تھی۔ مولانا نے اپنے نظریے کی تائید میں سورۂ’ن‘ کو پیش کیا ہے۔ حرف ’ن‘ اب بھی اپنے قدیم معنی ہی میں بولا جاتا ہے۔ اس کے معنی مچھلی کے ہیں اور اس سورت میں سیدنا یونس کا ذکر صاحب الحوت( مچھلی والے) کے نام سے آیا ہے۔ مولانا اس نام کو پیش کر کے فرماتے ہیں کہ اس سے ذہن قدرتی طور پر اس طرف جاتا ہے کہ اس سورۃ کا نام ’نون‘ اسی وجہ سے رکھا گیا ہے کہ اس میں صاحب الحوت( یونس ) کا واقعہ بیان ہوا ہے جن کو مچھلی نے نگل لیا تھا۔پھر کیا عجب کہ بعض دوسری سورتوں کے شروع میں جو حروف آئے ہیں وہ اپنے قدیم معانی اور سورتوں کے مضامین کے درمیان کسی مناسبت ہی کی بناء پر آئے ہوں۔ [3]
[1] سورة المعارج: 70 : 16 [2] التّكميل: ص63 [3] تفسير نظام القرآن: ص98