کتاب: رُشدشمارہ 07 - صفحہ 23
ہےاور تمہیں اس کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ یہ ایک جہت ہوئی یا یوں کہئے کہ اس کا ایک مفہوم یہ ہوا جس کی نظیر بھی قرآن مجید میں موجود ہےاور یہ نظم کلام سے ہم آہنگ بھی ہے۔ رہی دوسری تاویل تو نظیر اس کی بھی قرآن مجید میں موجود ہے، چنانچہ ارشاد ہوا: ﴿ وَ حِيْلَ بَيْنَهُمْ وَ بَيْنَ مَا يَشْتَهُوْنَ ﴾[1] لیکن سیاق کلام اس کی تائید نہیں کرتا۔ [2] اگر معنیٰ کسی ایسی عبارت کا مقتضی ہو جو کلام میں مذکور نہیں تو یہ مرجوح ہوگا۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ’’إذا كان المعنى مقتضيًا لعبارة غير ما في الكلام، فذلك المعنى مرجوح. ‘‘[3] مثلاً تغنّی بالقرآن کے مفہوم کے تعین میں سیدہ عائشہؓ اور امام شافعی رحمہ اللہ نے اسی اصول سے استدلال کیا۔ اس بارے میں سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ (198ھ) کا خیال تھا کہ اس کا مطلب یستغني بالقرآن ہے۔ جب امام شافعی رحمہ اللہ (204ھ)سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہم اس سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اس صورت میں حدیث کے الفاظ یوں ہونے چاہئیں تھے: ’’من لم یستغن بالقرآن‘‘چونکہ ’’لم یَتَغَنَّ‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اس لئے حدیث کا مفہوم استغناء نہیں بلکہ تغنی ہے۔ [4] مولانا فراہی رحمہ اللہ کے نزدیک تاویل کے ترجیحی اصولوں میں سےایک اصول یہ ہے کہ مختلف شکلوں میں سے سب سے زیادہ پائیدار اور ثابت شدہ شکل کو اختیار کیا جائے، چنانچہ ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں: ’’فإن المعنى الذي كثر في كلام العرب لا ينبغي تركه إلا لصارف قوي، فإذا تساوى الوجوه الأخر وهو النّظم والموافقة بباقي القرآن وصريح العقائد، لا بدّ أن نأخذ المعنى الشّائع. ‘‘[5] ’’ جو معنیٰ کلامِ عرب میں کثرت سے مستعمل ہو، اسے اس وقت تک ترک نہ کیا جائے، جب تک کہ کوئی زبردست مانع نہ پایا جائے۔ چنانچہ جب دیگر وجوہ مثلاً سورہ کا ربط و نظام، آیات کا سیاق، صریح عقائد اور دیگر آیات قرآنی سے ہم آہنگی اور مطابقت وغیرہ یکساں طور پر پائی جائیں تو ایسے وقت میں لازمی طور پر معروف و مشہور معنیٰ ہی اختیار کرنا چاہئے۔ ‘‘ مولانا فراہی رحمہ اللہ نے اس کی مثال ﴿ لِّلشَّوٰى﴾کی پیش ہے۔ کلامِ عرب میں اس کے معروف معنی پنڈلی کا
[1] سورة سبأ: 34 : 54 [2] التكميل: ص59 [3] أيضًا: ص59 [4] أيضًا: ص30، 59 [5] أيضًا: ص62