کتاب: رُشدشمارہ 07 - صفحہ 22
نہ ان کے خاص پہلوؤں کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن ایک صاحبِ نظر اور حقیقت کے متلاشی پر جب ایک مرتبہ بعض ظاہر پہلو واضح ہو جائیں تو اس کیلئے مزید غور و فکر کو ترک کرنا آسان نہیں رہ جاتا۔ و ہ آگے کی حقیقتوں سے واقف ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ اس اصول کا ایک لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر لفظ غیر مشتر ک ہو تو اس کو ایک ہی معنی کیلئے محدود کرنا لازم نہیں آتا، جیسا کہ بعض اہل الرائے کا خیال ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظ مجاز بھی ہو سکتا ہے حقیقت بھی۔ وہ اپنے عمومی معنی میں بھی ہوسکتا ہے خصوصی معنی میں بھی۔ اس کے معنی کے پہلو بھی مختلف ہو سکتے ہیں۔ البتہ اس کا استعمال موقع و محل کے تقاضا کے تحت ہوتا ہے۔ [1] کلام میں اگر متعدد احتمالات ہوں تو اس احتمال کو ترجیح ہوگی جس کی نظیر قرآنِ مجید میں موجود ہو۔ اور جس کی نظیر قرآن مجید میں موجود نہ ہواسے ترک کر دیا جائے گا۔ اسی طرح اگر دو معانی کا احتمال ہو اور دونوں کی نظیریں قرآن مجید میں موجود ہوں تو اسی احتمال کو ترجیح حاصل ہوگی جو نظمِ کلام کے مطابق ہو۔ مولانا فرماتے ہیں: ’’إذا كان الكلام ذا احتمالات، تؤخذ منها ما كان لها نظير في باقي القرآن. فما لم يوافقه قرآن غير فيه النزاع يترك. ‘‘[2] مثلاً آیتِ کریمہ: ﴿ وَ اعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰهَ يَحُوْلُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَ قَلْبِهٖ وَ اَنَّهٗ اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ﴾[3] كی درج ذیل تاویلیں ہو سکتی ہیں: 1.اللہ جل جلالہ تمہارے ضمیر سے خود تم سے زیادہ واقف ہے۔ 2.اللہ جل جلالہ آدمی کو اس کے ارادہ سے روک دیتا ہے۔ پہلی تاویل کی نظیر بھی قرآن مجید میں موجود ہے اور نظمِ کلام بھی اس کی تائید کرتا ہے، کیونکہ ﴿علم﴾ کا تصور دل میں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ پیدا کرتا ہے۔ اسی لیے متعدد مقامات پر اس کا ذکر تقوی کے ساتھ ہوا بھی ہے۔ مثلاً﴿وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْا اَنَّكُمْ اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ﴾[4] ، ﴿ وَاَنْ اَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّقُوْهُ وَ هُوَ الَّذِيْ اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ﴾[5] ، ﴿ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِيْ اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ﴾[6] اور تقویٰ پیدا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے تصورِ علم سے۔ تو گویا یہاں بات یہ کہی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو کیونکہ وہ تمہارے راز ہائے سربستہ سے واقف
[1] التکمیل: ص57، 58 [2] أيضًا: ص58 [3] سورة الأنفال: 8 : 24 [4] سورة البقرة: 2 : 203 [5] سورة الأنعام: 6 : 72 [6] سورة المائدة: 5 : 96 ؛ سورة المجادلة، 58 : 9