کتاب: رُشدشمارہ 07 - صفحہ 21
۴۔ یہ کہ کلامِ عرب کے نظائر اس تاویل کے خلاف ہیں۔ عرب اس مفہوم کیلئے مِنْ خِیَارِهِمْ اور من عليَائِهم کے الفاظ استعمال کرتے ہیں، مِنْ أَنْفَسِهِمْ نہیں کہتے۔ ۵۔ یہ کہ خدا کا احسان اسی شکل میں زیادہ ہوتا ہے جب رسول اپنی قوم ہی میں سے مبعوث ہو۔ ۶۔ حضرت ابراہیم کی دُعا یہی تھی کہ اللہ تعالیٰ اسی قوم کے ایک فرد کو نبوت پر سرفراز کرے۔ جن لوگوں نے یہ غلط تاویل اختیار کی وہ دراصل اسے آیتِ مباہلہ کی ایک غلط تاویل کیلئے بطور سند استعمال کرنا چاہتے تھے۔ [1] مولانا فراہی رحمہ اللہ مختلف جہتیں اور متعدد معانی پائے جانے کی شکل میں اس معنی کو ترجیح دیتے ہیں جو سیاق و سباق اور کلام کےعمود سے زیادہ مناسبت رکھتا ہو، فرماتے ہیں: ’’اعلم أن ما من كلمة إلا لها أطرف وجهات فهي كالمعاني لها. وكذلك كل أمر وقصة لها اعتبارات شتى وكما أن اللفظ المشترك يأول حسب محلّه فكذلك لا بدّ أن نأول الألفاظ والأمور حسب محلّها. ‘‘ [2] ’’ معلوم ہونا چاہئے کہ ہر لفظ کی متعدّد جہتیں ہوتی ہیں جو اس کے مختلف معانی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس لیے جس طرح مشترک لفظ کا معنیٰ موقع ومحل کی مناسبت سے متعین کیا جاتا ہے بالکل اسی طرح دیگر الفاظ و کلمات کی تعیین بھی موقع و محل کے تناظر میں ہونی چاہئے۔ ‘‘ مثال کے طور پر خدا کی مخصوص صفت اس کی کامل احدیت ہے لیکن اس کے باوجود ہم مختلف مواقع پر اللہ تعالیٰ کا ذکر مختلف اسماء کے ساتھ اور الگ الگ ترتیبوں سے پاتے ہیں، جیسے: ﴿ بِرَبِّ النَّاسِ٭مَلِكِ النَّاسِ٭ اِلٰهِ النَّاسِ٭﴾[3] يا ﴿ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ٭الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ٭مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ﴾[4] يا ﴿الْمَلِكِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ﴾[5] يا ﴿وَ هُوَ الْعَزِيْزُ الْغَفُوْرُ﴾[6] يا﴿اَلْمَلِكُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ﴾[7] جو شخص قرآن کو غور سے پڑھنے کا عادی نہیں وہ نہ کلمات کے موقع و محل کی طرف توجہ کرتا ہے اور
[1] التکمیل: ص64 [2] أيضًا: ص57 [3] سورة الناس: 114 : 1 ۔ 3 [4] سورة الفاتحة: 1 : 2 ۔ 4 [5] سورة الجمعة: 62 : 1 [6] سورة الملك: 67 : 2 [7] سورة الحشر: 59 : 23