کتاب: رُشدشمارہ 07 - صفحہ 19
اس اہم اور بنیادی اصل کو سامنے نہ رکھنے کی وجہ سے مولانا فراہیکے مطابق ہمارے علمائے تفسیر نے بعض الفاظ کے وہ معنی بیان کر دئیے ہیں جو نہ صرف حقائق کے خلاف ہیں بلکہ وہ ذوقِ سلیم پر گراں گزرتے ہیں اور طبیعت بھی انہیں تسلیم کرنے سے ابا کرتی ہے۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ نے اس کی پہلی مثال یہ بیان کی ہے کہ آیتِ کریمہ: ﴿ اِنْ تَتُوْبَا اِلَى اللّٰهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُكُمَا﴾ [1] کا ترجمہ عام طور پر مفسرین نے یہ کیا ہے کہ اگر تم دونوں اللہ سے توبہ کرتی ہوتو یہ تمہارے لیے بہتر ہے کیونکہ تمہارے دل سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں۔ مفسرین نے یہاں لفظ ’’صغو‘‘ کے مفہوم کو سمجھنے میں غلطی کی ہےاور اس لفظ کو ایک ایسا معنی پہنا دیا ہے جس کی کلامِ عرب میں کوئی نظیر نہیں۔ گویا معروف کو چھوڑ کر غیر معروف کا سہارا لیا ہے۔ فرماتے ہیں: ’’الميل معنى كلّي. ثم تحته: الزّيغ والجور والارعواء والحيادة والتّنحي والانحراف كلها للميل عن الشيء ؛ والفيء والتّوبة والالتفات والصّغو كلّها للميل إلى الشّيء، فمن خبط بينهما ضلّ وأضلّ. فلا يخفى على العالم بلسان العرب أنّ قوله تعالى: ﴿ صَغَتْ قُلُوْبُكُمَا ﴾ معناه أنابت قلوبكما، ومالت إلى اللّٰہ ورسوله. فإن الصّغو هو الميل إلى الشّيء، لا عن الشّيء. ‘‘[2] ’’ میل (جھکنا ، ہٹنا) ایک کلّی مفہوم ہے۔اس کے تحت عربی میں بہت سے الفاظ ہیں۔مثلاً الزّيغ، الجور، الارعواء، الحيادة، التّنحي اور الانحراف وغیرہ، لیکن یہ سب الميل عن الشّيء یعنی کسی چیز سے ہٹنے او رپھرنے کے لئے آتے ہیں۔ پھر اس کے تحت الفيء، التّوبة، الالتفات اور الصّغو وغیرہ الفاظ ہیں، جو سب کے سب الميل إلى الشّيء یعنی کسی چیز کی طرف مائل ہونے اور جھکنے کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔ جو لوگ اس قسم کے باریک فرقوں سے نا واقف ہیں وہ زبان کو سمجھنے میں خود بھی غلطیاں کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی غلطیوں میں ڈالتے ہیں۔ اس نکتہ کے واضح ہوجانے کے بعد عربی زبان کے ایک عالم سے یہ حقیقت مخفی نہیں رہ سکتی کہ ﴿ صَغَتْ قُلُوْبُكُمَا ﴾کے معنی ہیں:’’أنابت قلوبکما ومالت إلى اللّٰہ ورسوله‘‘ ’’تم دونوں کے دل اللہ اور اس کے رسول کی طرف جھک چکے ہیں۔ کیونکہ’’ صغو‘‘ کا لفظ کسی شے کی طرف جھکنے کیلئے آتا ہے، کسی شے سے مڑنے اور ہٹنے کیلئے نہیں آتا۔‘‘ مولانا کے نزدیک اس آیت کااسلوب بھی اس مفہوم کی نفی کرتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں: ’’اہل عرب کے متعلّق یہ بات معلوم ہے کہ وہ کلام میں حشو و زوائد سے بہت بچتے ہیں اور بات کے جتنے حصہ کا حذف ممکن ہو اس کے ذکر کو بلاغت کے خلاف سمجھتے ہیں۔ یہ فنِ بلاغت کا ایک نہایت وسیع باب ہے
[1] سورة التحريم: 66 : 4 [2] تفسير نظام القرآن: ص198