کتاب: رُشدشمارہ 07 - صفحہ 17
رقمطراز ہیں:
’’ولا نُورد في هذا الكتاب من الألفاظ إلا ما يقتضي بيانًا وإيضاحًا، إما لبناء فهم الكلام أو نظمه عليه، فإن الخطأ ربما يقع في نفس معنى الكلمة، فيُبْعِد عن التأويل الصّحيح، أو في بعض وجوهه، فيُغْلِق بابَ معرفة النّظم. وأما عامّة الكلمات فلم نتعرّض لها، وكتب اللّغة والأدب كافیةٌ به. ‘‘[1]
’’ اس کتاب میں ہم صرف انہی الفاظ و کلمات کو موضوع بحث بنائیں گے، کلام کا نظم و ربط جن کی تشریح و توضیح کا متقاضی ہو، کیونکہ غلطی بعض اوقات نفس کلمہ کے معنی میں واقع ہوتی ہے تو صحیح تاویل سے دور کر دیتی ہے یا بعض اوقات اس کی مختلف وجوہ میں ہوتی ہے تو نظم کی معرفت کا دروازہ بند کر دیتی ہے۔ جہاں تک باقی عام کلمات کا تعلّق ہے، تو ان سے ہم کوئی تعرض نہیں کریں گے، لغت و اَدب کی کتابیں ان کیلئے کافی ہیں۔‘‘
مگر چونکہ یہ کتاب پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچ سکی، اس لئے محض اس کتاب کی بنیاد پر مفردات کی تحقیق میں مولانا فراہی رحمہ اللہ کے مکمل طریقہ کار کی نشاندہی کرنا علمی حق تلفی کے مترادف ہے۔ [2] مولانا فراہی رحمہ اللہ کی کتاب ’’مفردات القرآن‘‘ اور ان کی دیگر تصنیفات کی روشنی میں ان بعض رہنما اُصولوں کی نشاندہی کی جا سکتی ہے جنہیں مولانا نے مفرداتِ قرآنی کی تحقیق میں پیش نظر رکھا ہے:
و ہ مفردات کی تحقیق میں محض لغت و تفسیر کی کتابوں کی نقل و حکایت اور ان کے بیان کردہ معانی کی تلخیص و تفصیل پر اکتفاء نہیں کرتے بلکہ لفظ کو اس کے اصل منبع و مرجع یعنی خود قرآن کریم اور پھر کلامِ عرب کی کسوٹی پر رکھتے ہیں کیونکہ قرآنِ کریم خالص عربی زبان میں نازل ہوا ہے اور زبان بھی وہ جو فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے معجزے کی حد کو پہنچی ہوئی ہے۔ اس لیے یہ جاننے کیلئے کہ لفظ کا صحیح استعمال کیا ہے؟ اور نزو لِ قرآن کے وقت بالضّبط اس کا كيا مفہوم تھا؟ کلامِ عرب کی طرف رجوع نہایت ضروری ہے۔
اگر کسی لفظ کا صحیح معنی متعین نہ ہوسکے تو اس کی توضیح و تفسیر کاطریقہ یہ ہے کہ عربی زبان سے مشابہت رکھنے والی عبرانی و سریانی زبانوں میں اس لفظ کا استعمال معلوم کیا جائے اور اس کی روشنی میں اس کا صحیح مفہوم متعین کیاجائے۔ عربی اور عبرانی زبان میں جو مماثلت پائی جاتی ہے اس بارے میں مولانا لکھتے ہیں:
’’فاعلم أن کلام المسیح المروي باللّغة اليونانية أصله عبراني. فلغة الإنجيل وكتب العهد العتيق واحدة، ولا شكّ أن العربي والعبراني ـ وهما لغتا الكتب المنزّلة ـ صنوان. إذا كان الأمر هكذا لا بدّ أن تشبّه بعضها بعضا، أو تهدي إحداهما إلى معنى الأخرى. ‘‘[3]
[1] مفردات القرآن: ص93
[2] أيضًا: ص54
[3] تفسير نظام القرآن: ص36