کتاب: رُشدشمارہ 07 - صفحہ 16
انہی وجوہات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مولانا فراہی رحمہ اللہ نے قرآنی لغت پر ایک رسالہ ’’مفردات القرآن‘‘ مرتّب کیا جس میں 77 قرآنی الفاظ کی تحقیق و تشریح عربی اشعار اور قرآنی استعمالات کو سامنے رکھتے ہوئے کی گئی ہے۔ یہ کتاب اگرچہ نا تمام رہی، تاہم مولانا عبدالاحد اصلاحی نے دائره حمیدیہ، سرائے میر اعظم گڑھ سے شائع کر دیا ہے۔ یہ کتاب ڈاکٹر محمد اجمل اصلاحی کی تشریح و تحقیق کے ساتھ دار العرب الاسلامی بیروت سے بھی 2002ء میں بڑی نفاست اور اعلیٰ معیار کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔
مولانا فراہی رحمہ اللہ تفسیر قرآن میں عربی زبان و ادب کو کلیدی حیثیت دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مفسر قرآن کیلئے ادبِ جاہلی سے واقفیت انتہائی ضروری ہے۔ اگر مفسر، تفسیر قرآن میں ادبِ جاہلی کو ملحوظ نہ رکھے تو بیشتر مقامات پر قرآن کے صحیح معنی و مفہوم کی وضاحت سے قاصر رہے گا، جس سے بہت سی خرابیاں لازم آئیں گی۔
جہاں تک قدیم جاہلی ادب کے مستند ہونے کا تعلّق ہے، تو اس سلسلے میں مولانا رقمطراز ہیں:
’’كما أن اللّٰہ تعالى وعد أن يحفظ متن القرآن العظيم، حيث قال: ﴿ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ۰۰۹ ﴾ فكذلك وعد بيانه حيث قال: ﴿ ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَه﴾ فمن بعض إنجاز وعده أنه حفظ اللسان العربي من الاندراس والمحو، وجعله حيّا باقيًا. ‘‘[1]
’’ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس بات کا وعدہ کیا ہے کہ وہ متنِ قرآن کی حفاظت کرےگا: ﴿ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ﴾ کہ ہم نے ذکر کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ اسی طرح اس کی تشریح و بیان کا بھی وعدہ فرمایا ہے: ﴿ ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهٗ﴾ کہ پھر ہمارے ذمے ہے اس کی وضاحت کرنا۔ چنانچہ یہ اسی وعدہ کا ایفا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عربی زبان وادب کو مٹنے سے محفوظ رکھا ہے اور اس کو ایک زندہ و قائم زبان بنادیا ہے۔ ‘‘
مفرداتِ قرآنی کی تحقیق
مولانا فراہی رحمہ اللہ نے ’’مفردات القرآن‘‘ لکھی تو اس میں ان کا مطمحِ نظر یہ تھا کہ قدیم کلامِ عرب اور قرآنی استعمالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے نمونے کے کچھ اہم اور مخصوص مفردات کی تحقیق و تشریح کی جائے۔الفاظ کی اصل کا سُراغ لگا یا جائے، ان کی روح کو سمجھنے اور باریکیوں اور لطافتوں کو دریافت کرنے کی کوشش کی جائے اور عام اہلِ لغت کی طرح محض کسی لفظ کے بہت سے معانی یکجا کر دینے پر اکتفاء نہ کیا جائے، بلکہ الفاظ و لغات سے متعلّق کچھ ایسی اُصولی بحثوں سے روشناس کرایا جائے جن سے بخوبی معلوم ہو سکے کہ الفاظ کی تحقیق کس اندازسے ہونی چاہئے؟ اور بحث وتحقیق کے کیا اُصول ہمارے پیشِ نظر رہنے چاہئیں؟ مولانا ’’مفردات القرآن‘‘ کے مقدّمہ میں
[1] تفسير نظام القرآن: ص31