کتاب: رُشدشمارہ 07 - صفحہ 15
تُعطيك ما تضمَّن عليه القرآن من الحكم والأسرار. فاحتَجنا إلى ثلاثة علوم: اللغة والتاريخ والحكمة، ومن أراد التأمل الصّحيح والتّدبّر التّام وجب عليه أن لا يغفُل عن التنقيد فيما يأخذه من هذه العلوم كلّها. ومن يتمسّك بالقرآن، وينوّر اللّٰہ عقله به، يطّلع على أغلاطٍ كثيرة في كتب القوم، والضرر يكون بقدر الاعتماد عليها والغفلة من التنقيد ومضرة كتب الفلسفة أضل وأوغل. فإن معظم القرآن الحكمةُ، وهي الأصل، ولا سبيل إلى فهمها من القرآن دون الاطّلاع على معاني كلماتها المفردة ودون العلم بصحيح علوم اللسان من البيان الحافل بدلائل. ‘‘[1]
’’ لغت اور غریب کی کتابوں میں ہمیں کلمات کے حدود وقیود کی مکمل تصویر کشی نہیں ملتی۔ سیر اور تفسیر کی کتابیں قرآن کے بیان کردہ مفاہیم سے ہمیں کلی طور پر روشناس نہیں کراتیں، اسی طرح اخلاق اور فلسفہ کی کتابیں قرآنِ کریم کے جملہ اسرار ورموز کی نقاب کشائی سے قاصر ہیں۔ اس لئے ہمیں لغت، تاریخ اور حکمت تینوں کی بیک وقت ضرورت ہے۔ اور جو شخص قرآن سے وابستہ رہے، اور اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے اس کے دل ودماغ کو روشن کردے تو ايسے لوگوں کی تصنیفات میں خاص طور پر فلسفہ کی کتابوں میں بے شمار لغزشیں اور گمراہ کن باتیں نظر آئیں گی۔ قرآن کریم سراپا علم وحکمت اور اصل واساس ہے۔ اس کے علوم ومعارف کی تہہ تک رسائی حاصل کرنے کیلئے مفردات قرآنی اور علومِ لسانی سے خاطر خواہ واقفیت ناگزیر ہے۔‘‘
فنِ نحو، منطق، علم البیان، فنِ بلاغت، اصول فقہ اور دوسرے فنون کے سلسلہ میں بھی مولانا فراہی رحمہ اللہ کا نقطہ نظر یہی ہےکہ یہ سب مختلف پہلوؤں سے تشنہ اور اصلاح و ترمیم یا تدوینِ نو کے محتاج ہیں، تب کہیں جا کر ان سے تفہیم وتوضیحِ قرآن میں مدد لی جاسکتی ہے۔ لغات کی اہمیت بس یہ ہے کہ ان میں استعمالات اور شواہد ونظائر سے اکثر لفظ کے مختلف پہلو واضح ہوجاتے ہیں، لیکن قرآن کے اصل مدّعا کو سمجھنے کیلئے دوسری چیزوں کی ضرورت زیادہ ہے۔’’لسان العرب‘‘ وغیرہ میں اہلِ تاویل کے مختلف اقوال کا نقل کر دیا جانا کوئی خاص اہمیت کی چیز نہیں ہے اور اس سے حلِ مشکلات میں بہت زیادہ مدد نہیں ملتی۔ مولانا فرماتے ہیں:
’’وأما باقي علوم اللسان كالنحو والمنطق والأصول والبيان والبلاغة والقافية فالكتب المدوّنة فيها ـ مع كثرة فوائدها ـ أشد تقصيرًا من كتب اللغة لفهم القرآن. ‘‘[2]
’’ اور باقی لسانی علوم جیسے نحو، منطق، اصول، بیان، بلاغہ اور قافیہ وغیرہ میں مدون کتب ــــ اپنے متعدد فوائد کے باوجود فہم قرآن کے سلسلے میں کتب لغت سے بھی زیادہ قاصر ہیں۔‘‘
[1] الفراهي، حميد الدين أبو أحمد، مفردات القرآن: ص 98، الدائرة الحميدية، مدرسة الإصلاح، سرائي مير أعظم كرھ ، الطبعة الثانية، 2004م
[2] مُفردات القرآن: ص98