کتاب: رُشدشمارہ 07 - صفحہ 13
اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا فراہی رحمہ اللہ کو دورِ جاہلیت کے شعری و نثری سرمایہ سے کافی دلچسپی تھی اور ان سے انہوں نے اپنی تفسیر میں استشہاد بھی خوب کیا ہے۔ وہ کہیں عربی لغت کی کسی کتاب کا حوالہ دیتے نظر نہیں آتے اور ابن منظور رحمہ اللہ (متوفیٰ 711ھ) کی لسان العرب اور جوہری رحمہ اللہ (متوفیٰ393ھ) کی الصحاح کے سوا کسی کو بطور مرجع استعمال کرتے دکھائی نہیں دیتے لیکن جاہلی اشعار سے استشہاد اور مفہوم کی تعیین میں ان سے مدد لینا مولانا کے منہجِ تفسیر کا نمایاں پہلو ہے۔ مثال کے طور پر آیتِ کریمہ﴿اِنْ تَتُوْبَا اِلَى اللّٰهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُكُمَا﴾[1] میں ’صغو‘ کے معنی عام مفسرین نے منحرف ہونا، حق سے پھرنا اور نافرمانی کرنا کئے ہیں لیکن مولانا فراہی رحمہ اللہ اسے’’ أنابت قلوبکما ومالت إلى اللّٰہ ورسوله ‘‘کہ تم دونوں کے دل اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھک گئے ہیں، کے معنیٰ میں لیتے ہیں پھر وہ لفظ ’’صغو‘‘ کی لغوی تحقیق کرتے ہیں اور اس کے تمام مشتقات میں اس مفہوم کی موجودگی سے استدلال کرتے ہیں[2] اور آخر میں کلامِ عرب سے بطور دلیل اشعار پیش کرتے ہیں۔ ابن بری رحمہ اللہ (متوفیٰ 1187ھ) نے ’’الإصغاء بالسّمع‘‘ ’’کسی کی طرف کان لگانا۔‘‘ کے ثبوت میں شاعر کا مندرجہ ذیل شعر پیش کیا ہے: تَرَی السّفِيهَ بِهِ عَن کُلّ مَكْرُمَةٍ زَیْغٌ وفِيهِ إِلَى التَّسْفِيهِ إِصْغَاء[3] ’’ نادان انسان کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ عزت و شرف کی ہر بات سے منہ موڑتا ہے اور سفاہت کی باتوں کی طرف کان لگاتا ہے۔‘‘ ذو الرّمہ اونٹنی کی تعریف میں کہتا ہے: تُصْغِي إِذَا شَدَّهَا بِالکُورِ جَانِحَةً حَتّی إِذَا مَا اسْتَوَی فِي غَرْزِهَا تَثِبُّ[4] ’’ جب وہ اس پر کجاوہ کستا ہے تو وہ گردن موڑ کر کان لگاتی ہے، یہاں تک کہ جب وہ اس کے رکاب میں پاؤں رکھ دیتا ہے تو وہ جھپٹ پڑتی ہے۔‘‘
[1] سورة التحريم: 66 : 4 [2] الفراهي، حميد الدين، أبو أحمد عبد المجيد، تفسير نظام القرآن وتأويل الفرقان بالفرقان: ص198، الدائرة الحمیدية، الهند، الطبعة الأولى، 2008م [3] الأفريقي، محمد بن مكرم بن علي، لسان العرب: 14/461، دار صادر، بيروت، الطبعة الثالثة، 1414ھ [4] القرطبي، أبو عبد الله محمد بن أحمد، الجامع لأحكام القرآن: 7/69، دار الكتب المصرية، القاهرة، الطبعة الثانية، 1964م