کتاب: رُشدشمارہ 07 - صفحہ 122
’’مغیرہ ابراہیم سے روایت کرتےہیں کہ انہوں نے کہا: قنوت وتر میں کوئی مقرر چیزنہیں ہے یہ تو صرف دعا اور استغفار ہے۔‘‘
ڈاکٹر محمد بن محمد ابوشہبہ المصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ یہ سورۃ الخلع اور سورۃ الحفد قرآن کا حصہ ہو کیونکہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کےمصاحف حد تواتر کو نہیں پہنچتے تھے، بلکہ وہ آحاد اور منسوخ التلاوت آیات پر مشتمل تھے۔ ان میں سے بعض مصاحف میں تفسیری نوٹ اور تاویلات، ادعیۃاور ماثورات بھی تھے اور انہی میں سے ایک یہ دعاء قنوت بھی تھی جس کو بعض ائمہ وتر میں پڑھتے ہیں ۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ اس دعا کی بلاغت، اعجاز اور اشراف قرآن جیسا نہیں ہے ۔
اگر بالفرض ہم تسلیم بھی کرلیں کہ سیدنا ابی اس کو قرآن کا حصہ سمجھتے تھے تو اس کے متعلق جتنی بھی روایات ہیں وہ ساری خبر آحاد ہیں جو کہ ظنی ہیں اور ظنی قطعی الثبوت بالتواتر کا معارض اور مقابل نہیں ہوسکتا۔ قرآن چونکہ ثابت بالتواتر ہے اسی لئے تواتر سے ہی کوئی آیت ثابت کی جائے گی نہ کہ آحاد سے۔‘‘
اس کے بعد فرماتے ہیں:
’’قرآن میں کسی آیت کی زیادتی یا کمی کے لیے دو قاعدے ہیں جن کی طرف توجہ ضروری ہے:
۱۔ ہر وہ روایت جو خبر واحد ہو اس کو قرآن کے اثبات کے لیے قبول نہیں کیا جائےگا۔
۲۔ ہر وہ خبر واحد جو قرآن کی خبرمتواتر کے خلاف ہو اس کو قبول نہیں کیا جائےگا ۔‘‘ [1]
مندرجہ بالا تمام روایات اور تحقیق سے یہ بات ثابت ہو تی ہے کہ بعض لوگ جو قرآن کو نامکمل سمجھتے ہیں، وہ اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف بعض ایسی روایات منسوب کردیتے ہیں جن سے یہ ثابت اور باور کراتے ہیں کہ صرف ہم قرآن کے نامکمل ہونے کے قائل نہیں ہیں بلکہ صحابہ بھی اس کے قائل تھے۔ جیسا کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما کے متعلق بھی معوذتین کے حوالے سے ایسی ہی روایات مشہور ہیں اور ایسی ہی روایات ابی بن کعب کی طرف بھی منسوب ہیں۔
[1] أبوشهبة المصری، محمد بن محمد، المدخل علی دراسة القرآن الکریم: ص، 259، فصل الشبه التي أوردت على جمع القرآن الشبهة الرابعة، الطبعة الأولى، 1987م