کتاب: رُشدشمارہ 07 - صفحہ 12
عرب کی روایت کے مطابق اعزاز کے طور پر ان کا قصیدہ خانہ کعبہ میں آویزاں کیا گیا۔ یہ لبید بعد میں مسلمان ہو گئے۔ مسلمان ہونے کے بعد انہوں نے شعر کہنا ترک کر دیا۔ جو شاعر تمام عرب شعراء کا مسجود، وقت کا ملک الشّعراء اور عرب کی فصاحت و بلاغت کا مظہرِ کامل ہو، اس کے ترکِ شعر پر لوگوں کو بڑا تعجب ہوا۔ کسی نے پوچھا کہ اب آپ شعر نہیں کہتے؟ جواب میں انہوں نے فرمایا:’’ أبعد القرآن؟‘‘[1] کہ کیا قرآن کے نازل ہو جانے کے بعد بھی اس کیلئے کوئی گنجائش باقی ہے؟
قرآن مجیدکے اعجاز بلاغت کے آگے سرافگندگی کا یہ اظہار واعتراف اس عظیم شاعر کی طرف سے ہے جو اپنے زمانے میں عرب کی تمام فصاحت و بلاغت کا نشان و علم تھا۔ جب وہ اس طرح قرآن کے آگے سربسجود ہوگیا تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ عرب کی تمام فصاحت وبلاغت نے قرآن کی فصاحت وبلاغت کے آگے گھٹنے ٹیک دئیے۔ اس کے بعد کسی اور کیلئے قرآن کے آگے نگاہیں اونچی کرنے کا کیا امکان باقی رہا؟
اس درجے و مرتبے کے کلام کے زور و اثر اور اس کی خوبیوں کا اگر کوئی شخص اندازہ کرنا چاہے تو یہ کام ظاہر ہے کہ وہ صرف اس کے ترجمہ، تفسیر اور اس کے لغتوں کے ذریعے سے نہیں کر سکتا۔بلکہ اس کیلئے اس کو اس زبان کا ذوق پیدا کرنا پڑے گا، جس میں وہ کلام ہے۔ کسی کلام کا ذوق پیدا کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کیلئے فطری رجحان طبیعت اور لطافت ذوق کے ساتھ ساتھ اس زبان کی مشق و ممارست ناگزیر ہے۔ برسوں کی محنت کے بعد کہیں آدمی میں کسی زبان کا ذوق پیدا ہوتا ہے اور اگر زبان اپنی مادری زبان نہ ہو تو یہ مشکل دو چند ہوجاتی ہے۔
تفسیر قرآن بذریعہ ادبِ جاہلی
مولانا فراہی رحمہ اللہ عربی لغت و اسالیب سےواقفیت و استفادہ پر زیادہ زور دیتے ہیں کہ قرآن کے الفاظ و اسالیب بعینہٖ آج بھی وہ ہیں جن پر وہ نازل ہوا ہے۔ یہ بات معلوم ہے کہ قرآن مجید کانزول عرب کی اس ٹکسالی زبان میں ہوا ہے جو نزولِ قرآن کے وقت عرب میں جاری و ساری تھی۔ اس لئے قرآن کے اسالیب، اس کے اشارات و تلمیحات اور تعریضات و کنایات کو سمجھنے میں صرف عربی زبان ہی معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ عرب کے معروف و منکر، ان کی معاشرتی زندگی کی خصوصیات، ان کی سوسائٹی میں خیر و شر کے معیارات، ان کے سماجی تمدّنی اور سیاسی نظریات، روز مرہ کی زندگی میں ان کی دلچسپیاں اور مشاغل، ان کے مذہبی رسومات و معتقدات غرض ان کی ساری چیزوں کو سمجھنے میں عربی زبان سے زیادہ بہتر ماخذ کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ صحابہ کرام کے کلامِ عرب سے استشہاد اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے تاریخی جملہ’’ الشّعر دیوان العرب‘‘[2]سے بھی اس کی
[1] امین احسن اصلاحی، مولانا، تدبّرقرآن: 1/14، فاران فاؤنڈیشن، لاہور، 1999ء
[2] الزركشي، أبو عبد اللّٰه بدر الدين، البرهان في علوم القرآن: 1/294، دار إحياء الكتب العربية، الطبعة الأولى، 1957م