کتاب: رُشدشمارہ 07 - صفحہ 119
تعطي ولا ينفع ذا الجد منك الجد سبحانك وغفرانك وحنانيك إله الحق. ‘‘[1] ’’وأخرج محمد بن نصر عن الشعبي قال : قرأت أو حدثني من قرأ في بعض مصاحف أبي بن كعب هاتين السورتين: اللّٰہ م إنا نستعينك ، والأخرى بينهما بسم اللّٰہ الرحمن الرحيم قبلهما سورتان من المفصل وبعدهما سور من المفصل. وأخرج محمد بن نصر عن سفيان قال : كانوا يستحبون أن يجعلوا في قنوت الوتر هاتين السورتين: اللّٰہ م إنا نستعينك واللّٰہ م إياك نعبد. ‘‘[2] سورۃ الخلع اور سورۃ الحفد سے متعلق روایات پر تحقیقی تبصرہ قاضی ابو بکر الباقلانی رحمہ اللہ (متوفیٰ 402ھ) صاحب الانتصار نے سورۃ الخلع اور سورۃ الحفد پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں: ’’سیدنا ابی بن کعب کے مصحف میں قنوت کےبارے میں جو روایات مروی ہیں ان سے اس کے قرآن ہونے پر حجت قائم نہیں کی جاسکتی۔ یہ ایک قسم کی دعا ہے۔ اور اگر یہ قرآن ہوتا تو ا س کا قرآن ہونا منقول ہوتا اور ہمیں اس کی صحت کا علم ہوتا۔ اس کے بعد مزید فرماتے ہیں: یہ بھی ممکن ہے کہ اس میں سے کچھ حصہ قرآن کا ہو اور بعد میں منسوخ ہوگیا ہو۔ یا اس کے ساتھ دعا مانگنا مباح ہو اور غیر قرآن کےساتھ یہ خلط ملط ہوگیا ہو۔ لیکن سیدنا ابی بن کعب سے یہ اس طرح صحیح ثابت نہیں ہے کہ کوئی یہ کہے : یہ ان سے روایت کیا گیا ہے ، اُن سے اس طرح سے روایت کیا گیا ہے، ان کے مصحف میں اس طرح سے ثابت ہے ۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ ان کے مصحف میں قرآن کے علاوہ بطور دعا منقول ہے۔بعض لوگ یہ کہتےہیں کہ سیدنا ابی بن کعب نے ان(سورۃ الخلع اور سورۃ الحفد) کو اپنے مصحف میں لکھا تھا اور اس کو سورۃ الخلع وحفد کا نام دیا تھا کیونکہ اس میں ان دو کلموں کا ذکر آیا ہے تو اس بارے میں میری توجیہ یہ ہے کہ بعض صحابہ اپنے لئے ایک مصحف میں قرآن لکھتے تھے۔ اس خاص مصحف میں بسا اوقات وہ قرآن کی کسی مشکل آیت کے ساتھ اپنی آسانی کے لیے کوئی تشریحی نوٹ لکھ لیتے تھے یا کوئی دعا ہوتی جو ادعیہ قرآن کی قائم مقام ہوسکتی تھی اور جن کو نماز میں قنوت وغیرہ میں پڑھا جاسکتا تھا اور ان کو یہ خوب معلوم تھاکہ یہ قرآن نہیں ہے کیونکہ اُن لوگوں نے قرآن کے ساتھ کسی اور چیز کے اشتباہ سے اپنے آپ کو محفوظ کیا ہوا تھا۔اسی وجہ سے بعض کوتاہ نظر لوگوں کو یہ اشتباہ پیدا ہوگیا ہے کہ ہر وہ چیز جو صحابہ نے اپنے مصاحف میں لکھی ہوئی تھی، وہ قرآن ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔‘‘ [3]
[1] المروزی، محمد بن نصر، صلاۃ الوتر: 1/105، رقم، 71۔ [2] أیضاً [3] الزرقاني، محمد عبد العظیم، مناهل العرفان في علوم القرآن:1/271، الرد على ما يثار حول جمع القرآن من شبه، مطبعة عيسى البابی الحلبی وشركاءه، الطبعة الثالثة