کتاب: رُشدشمارہ 06 - صفحہ 87
المقدسی رحمہ اللہ[1] نے اس پر تمام اہل علم کا اجماع نقل کیا ہے۔ اِمام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’سلف و خلف اہل علم میں سے کوئی بھی اس حکم کا مخالف نہیں ہے اور سب کا اتفاق ہے کہ عورت کی دیت، مرد کی دیت کا نصف حصہ ہے، جو کہ 50اونٹ بنتے ہیں۔ عورت کو قتل کرنے والا خواہ مرد ہو، عورت ہو یا ایک جماعت ہو، ورثاء کی جانب سے دیت اختیار کرلینے کی صورت میں آدھی دیت ہی دینا ہوگی۔‘‘ [2] ابوبکر ابن منذر رحمہ اللہ (متوفیٰ 733ھ) فرماتے ہیں: ’’تمام فقہاءکا اجماع ہے کہ عورت کی دیت مرد کی دیت کا آدھا حصہ ہے۔ ‘‘ [3] اِمام ابن حزم رحمہ اللہ (متوفیٰ 456ھ)فرماتے ہیں: ’’تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ قتل خطا میں 100 اونٹ دیت ہے جبکہ عورت کی دیت 50 اونٹ ہے۔‘‘ اِمام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (متوفیٰ 725ھ)نے بھی اس اجماع کی تائید کی ہے۔[4] اِمام ابوالقاسم الخرقی رحمہ اللہ (متوفیٰ 334ھ)فرماتے ہیں: ’’آزاد مسلمان عورت کی دیت آزاد مسلمان مرد کی دیت کا آدھا حصہ ہے۔‘‘ [5] شیخ ربیع مدخلی، محمد الغزالی رحمہم اللہ کی مذکورہ کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’فقہاء اُمت اور محدثین کرام رحمہم اللہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مسلمان عورت کی دیت مسلمان مرد کی دیت کا نصف حصہ ہے، جبکہ شیخ الغزالی رحمہ اللہ اپنی لاعلمی میں اس متفق علیہ حکم کو فقط محدثین رحمہم اللہ کی جانب منسوب کررہے ہیں، تاکہ ان پر جھوٹ اور مخالفتِ قرآن کی تہمت لگا سکیں ،لیکن اللہ تعالیٰ نے شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ کی غلطی کو کھول دیا ہے تاکہ عام مسلمان اس گمراہ کن موقف سے بچ سکیں۔‘‘ [6]
[1] الشرح الكبير لابن قدامة :9/518 [2] الغزالي، محمد، السنة النبوية بين أهل الفقه وأهل الحديث: ص 19، المعهد العالمي للفكر الإسلامي، القاهرة [3] ابن منذر، محمد بن إبراهیم منذری، الإجماع: ص147، دار المسلم للنشر والتوزيع، الطبعة الأولى، 2004م [4] ابن حزم، علي بن أحمد بن سعید، مراتب الإجماع: ص140، دار ابن حزم، بیروت [5] ابن قدامة، عبد اللّٰه بن أحمد بن محمد المقدسي، المغنی: 8/402، هجر للطباعة والنشر، جیزه، الطبعة الثانیة، 1992م [6] المدخلي، ربيع بن هادي، کشف موقف الغزالي من السنة وأهلها ونقد بعض آرائه: ص87، مكتبة ابن القيم، المدينة المنورة، 1410ھ