کتاب: رُشدشمارہ 06 - صفحہ 81
امام عدوی رحمہ اللہ (متوفیٰ 1189ھ) فرماتے ہیں:
’’وأما دية المرأة الحرة المسلمة فعلى النصف من دية الرجل الحر المسلم، فديتها خمسون من الإبل. ‘‘[1]
’’آزاد مسلمان عورت کی دیت آزادمسلمان مرد سے آدھی ہے، اور وہ پچاس اونٹ ہے۔‘‘
امام ابن رشد رحمہ اللہ (متوفیٰ 595ھ) فرماتے ہیں:
’’وأما دية المرأة فإنهم اتفقوا على أنها على النصف من دية الرجل في النفس فقط. ‘‘[2]
’’عورت کی دیت کے بارے میں تمام کا اتفاق ہے کہ وہ مرد کی دیت سے آدھی ہے اور یہ صرف جان جانے کی صورت میں ہے۔‘‘
شوافع:احناف اور مالکیہ کی مانند شافعیہ کے نزدیک بھی عورت کی دیت مرد سے آدھی ہے۔ امام مزنی رحمہ اللہ (متوفیٰ 264ھ) فرماتے ہیں:
’’ودية المرأة وجراحها على النصف من دية الرجل، فيما قلّ أو كثُر. ‘‘[3]
’’عورت اور اس کے زخموں کی دیت مرد سے آدھی ہے ، خواہ وہ قلیل ہو یا کثیر ہو۔‘‘
حنابلہ:دیگر فقہاء کرام کی مانند حنابلہ کے نزدیک بھی عورت کی دیت مرد سے آدھی ہے۔ امام ابن قدامہ المقدسی رحمہ اللہ (متوفیٰ 682ھ) فرماتے ہیں۔
’’ودية المرأة نصف دية الرجل إذا كانت المرأة حرة مسلمة، فديتها نصف دية الحر المسلم، أجمع على ذلك أهل العلم، ذكره ابن المنذر وابن عبد البر. ‘‘[4]
’’عورت کی دیت مرد کی دیت سے آدھی ہے،جب عورت آزاد مسلمان ہو تو اس کی دیت ایک آزاد مسلمان مرد کی دیت سے آدھی ہے۔تمام اہل علم کا اس پر اجماع ہے ۔امام ابن المنذر رحمہ اللہ (متوفیٰ 319ھ) اور امام ابن عبد البر رحمہ اللہ (متوفیٰ 463ھ) نے یہی ذکر کیا ہے۔‘‘
[1] العدوي، أبو الحسن علي بن أحمد، حاشية العدوي على شرح كفاية الطالب الربانى: 2/300، دار الفكر، بيروت، 1994م
[2] ابن رشد، أبو الوليد محمد بن أحمد، بداية المجتهد ونهاية المقتصد: 4/196، دار الحديث، القاهرة، الطبعة الأولى، 2004م
[3] المزني، إسماعيل بن يحييٰ بن إسماعيل، مختصر المزني: 8/352، دار المعرفة، بيروت، الطبعة الأولى، 1990م
[4] ابن قدامة المقدسي، شمس الدين أبو الفرج عبد الرحمن، الشرح الكبير: 25/388، هجر للطباعة والنشر والتوزيع والإعلان، القاهرة، الطبعة الأولى، 1995م