کتاب: رُشدشمارہ 06 - صفحہ 61
حجیت خبر واحد خبر واحد كی تعریفات کے ذکر کے بعد اب ہم خبر واحد کی حجیت کو زبر بحث لائیں گے۔اور قرآن، حدیث اور عمل صحابہ کی روشنی میں خبر واحد کی حجیت کو پیش کریں گے۔ قرآن میں خبر واحد ۱۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے خبر واحد پر اعتماد کیا، فرمانِ باری ہے: ﴿ فَلَمَّا اَنْ جَآءَ الْبَشِيْرُ اَلْقٰىهُ عَلٰى وَجْهِهٖ فَارْتَدَّ بَصِيْرًا﴾ [1] ’’جب خوشخبری دینے والے نے پہنچ کر ان کے منہ پر کرتہ ڈالا اسی وقت وہ پھر بینا ہو گئے۔ کہا! کیا میں تم سے نہ کہا کرتا تھا کہ میں اللہ کی طرف سے وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔‘‘ یہ اس دور کا واقعہ ہے کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ بھائیوں کا تعارف ہوگیا تو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنا کرتہ انہیں دیا کہ یہ جاکر میرے والد کے چہرے پر ڈالو وہ بینا ہوجائیں گا۔ چنانچہ انہوں نے ایک آدمی کو وہ کرتہ دے کر حضرت یعقوب کے پاس بھیجا او راس نے جاکر وہ کرتہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے چہرے پر ڈالا تو وہ بینا ہوگیا تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا کہ میں نے تمہیں کہا تھا کہ میں اللہ کی طرف سے وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ تو یہاں حضرت یعقوب نے ایک آدمی کی خبر پر اعتماد کیا ہے۔پس معلوم ہوا کہ خبر واحد حجت اور قابل عمل ہے۔ ۲۔ اہل کتاب کے علما کو خبر واحد بیان کرنے کا حکم تھا، ارشاد باری ہے: ﴿ وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَتُبَيِّنُنَّهٗ لِلنَّاسِ وَ لَا تَكْتُمُوْنَهٗ فَنَبَذُوْهُ وَرَآءَ ظُهُوْرِهِمْ وَاشْتَرَوْا بِهٖ ثَمَنًا قَلِيْلًافَبِئْسَ مَا يَشْتَرُوْنَ﴾ [2] ’’ اور اللہ تعالیٰ نے جب اہل کتاب سے عہد لیا کہ تم اسے سب لوگوں سے ضرور بیان کرو گے اور اسے چھپاؤ گے نہیں، تو پھر بھی ان لوگوں نے اس عہد کو اپنی پیٹھ پیچھے ڈال دیا اور اسے بہت کم قیمت پر بیچ ڈالا۔ ان کا یہ بیوپار بہت برا ہے۔‘‘ ملّا جیون رحمہ اللہ نے اپنی تالیف نور الانوار میں حجیت خبر واحد پر یہ آیت نقل کرکے كہا ہے کہ اللہ تعالی نے اس آیت میں اپنی کتاب کی تبیین و تبلیغ اور وعظ و نصیحت ہر اس شخص پر لازم قرار دی ہے کہ جس کے پاس کتاب کا علم ہے، خواہ فرد واحد ہو یا جماعت۔ اور پھر فرمایا کہ اس تبلیغ کا مقصد یہ ہے کہ لوگ اس پر عمل کریں اور فرمایا کہ
[1] سورة یوسف:12 :96 [2] سورة آل عمران:3: 187