کتاب: رُشدشمارہ 06 - صفحہ 59
لغوی تعریف
لفظ واحد کا مادہ ’و۔ح ۔د‘ہے۔ اہل لغت کے نزدیک واحد اور آحاد کا معنیٰ ایک ہی ہے۔لفظ ’آحاد‘، ’ احد‘کی جمع ہے۔ یہ لفظ دو ہمزوں کے ساتھ ’ااحاد‘تھا پھر ہمزہ کو لفظ آدم کی طرح الف میں تبدیل کردیا گیا ۔ لفظ ’آحاد‘ اور ’واحد‘ ایک ہی معنیٰ میں مستعمل ہیں اور لغت میں ان سے مراد ایسی شے ہے جس کا کوئی جزء نہ ہو لیکن یہ عمومی طور پر موجود شے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔[1] ان دونوں الفاظ کے معنی ایک، اکیلا، یکتا اور تنہا ہیں۔لفظ ’احد‘گنتی کا پہلا عدد بھی ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ واحد،اثنان: یعنی ایک، دو وغیرہ۔ [2]
اصطلاحی تعریف
خبر واحد کی اصطلاحی تعریف میں علماے اصول کے مابین اختلا ف ہے اور اس اختلاف کی بنیادی وجہ سنت کی قسموں میں اختلاف ہے۔ جمہور کے ہاں خبر کی دو اقسام ہیں : خبر متواتر اور خبر واحد ،جبکہ احناف حدیث کو تین بنیادی اقسام: متواتر، مشہور اور واحد میں تقسیم کرتے ہیں۔
جمہور کے ہاں خبر واحد کی تعریف
شیرازی رحمہ اللہ (476ھ) خبر واحد کی تعریف اس طرح کرتے ہیں:
’’اعلم أن خبر الواحد ما انحط عن حدّ التواتر.‘‘[3]
’’خبر واحد وہ خبر ہے جو متواتر کی شرط پوری نہ کرسکے۔‘‘
ابوالحسن ماوردی رحمہ اللہ (متوفیٰ 450ھ) رقم طراز ہیں:
’’وأما أخبار الآحاد فهو ما أخبر الواحد العدد القلیل الذی یجوز على مثله تواطؤه على الکذب أو الاتفاق في السهو والغلط. ‘‘[4]
’’خبر واحد وہ خبر ہے جو اتنی قلیل تعداد سے مروی ہو کہ جن کا مخفی طور پرجھوٹ ، غلطی یا بھول پراتفاق کرلینے کا گمان جائز ہو۔‘‘
[1] الأصفهاني، أبو القاسم الحسين بن محمد، المفردات في غریب القرآن:ص514، دار القلم، الدار الشامية، بيروت، الطبعة الأولى، 1412ھ
[2] ابن منظور، الأفريقي، محمد بن مكرم، لسان العرب:3/70، دارصادربيروت، الطبعة الثالثة، 1414ھ
[3] الشيرازي، أبو إسحاق إبراهيم بن علي، اللمع في أصول الفقه: ص72، دار الكتب العلمية، الطبعة الثانية، 2003م
[4] الماوردي، أبو الحسن علي بن محمد، الحاوي الكبير في فقه مذهب الإمام الشافعي:16/86، دار الكتب العلمية، بيروت، الطبعة الأولى، 1999م