کتاب: رُشدشمارہ 06 - صفحہ 55
اور جنہیں صحابہ وتابعین تفسیر قرآن میں مد نظر رکھتے تھے تاکہ تفسیر بالمنقول والمعقول میں حق اور باطل کے درمیان امتیاز ہو سکے اور صحیح تفسیری اقوال کو باطل سے جدا کیا جا سکے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ’’ مقدّمة في أصول التّفسیر‘‘ کا سببِ تالیف یہی بیان کرتے ہیں۔ [1] اگر اصولِ تفسیر کی تدوین کے حوالے سے پچھلے علماء کی علمی کاوشوں کا جائزہ لیا جائے تو چار قسم کی کتب سامنے آتی ہیں: کتبِ اصول فقہ جن میں فقہائے کرام نے قرآن وسنت سے استدلال واستنباط کرنے کے اُصول واضح کیے اور ان کتابوں میں اصولِ تفسیر کو بھی مفصل طور پر واضح کیا گیا۔اس سلسلے کی پہلی جامع کتاب امام شافعی رحمہ اللہ کی کتاب ’الرسالہ ‘ہے کہ جس میں انہوں نے کتاب وسنت کی بنیادی مباحث، مراتبِ بیان ، ناسخ ومنسوخ، عموم خصوص، مجمل مفصل اور امر ونہی وغیرہ کے متعلّق تفصیلی بحث کی۔ اور یہ تمام علوم اصولِ تفسیر اور اصولِ فقہ میں مشترک ہیں۔ کتبِ تفسیر، جن کے مقدمات میں مفسرین نے مصادرِ تفسیر ذکر کیے یا بعض آیات کی تفسیر کے دوران اصولِ تفسیر کی بعض جزئیات پر بحث کی۔ ان میں سے بعض کتب حسبِ ذیل ہیں: ۱۔ جامع البیان لابن جرير 310ھ ۲۔ التّحریر والتّنویر للطاهر ابن عاشور 1393ھ ۳۔ النّكت والعيون للماوردي 450ھ ۴۔ أضواء البیان لمحمّد الأمين الشّنقیطي 1393ھ ۵۔ جامع التّفاسير للراغب الأصفهاني 502ھ ۶۔ المحرّر الوجيز لابن عطية 541ھ ۷۔ الجامع لأحکام القرآن لمحمّد بن أحمد القرطبي 671ھ ۸۔ تفسیر القرآن العظیم لابن کثیر الدمشقي 774ھ کتب علوم القرآن، ان کتابوں میں شائد کوئی ایسی کتاب ہو جس میں مصادرِ تفسیر جیسے اہم ترین موضوع پر گفتگو نہ کی گئی ہو۔ ان میں سے بعض کتب یہ ہیں: ۹۔ البرهان للزّركشي 794ھ ۱۰۔ الإتقان للسّيوطي 911ھ ۱۱۔ مناهل العرفان للزّرقاني 1367ھ
[1] مقدّمة في أصول التفسير: ص1