کتاب: رُشدشمارہ 06 - صفحہ 53
میں عطاء جو اقوال نقل کرتے ہیں وہ سعید بن جبیر رحمہ اللہ کی کتاب سے ماخوذ ہیں۔ انہوں نے براہِ راست سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے نہیں سنا۔ ابو حاتم رحمہ اللہ (متوفیٰ277ھ) فرماتے ہیں کہ عطاء رحمہ اللہ یوں تو ثقہ ہیں مگر تفسیری اقوال انہوں نے سعید بن جبیر رحمہ اللہ کی کتاب سے لئے ہیں۔ عبد الملک بن مروان رحمہ اللہ (متوفیٰ86ھ) نے سعید بن جبیر کو قرآن کی تفسیر لکھنے پر مامور کیا تھا تو سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے یہ تفسیر لکھی۔ عطاء بن دینار رحمہ اللہ کو یہ تفسیر کہیں سے مل گئی۔ چنانچہ انہوں نے اس تفسیر کو سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے ارسال کے ساتھ روایت کر دیا۔‘‘
سیدنا ابن جریج رحمہ اللہ متوفیٰ 150)ھ کے بارے میں بھی معروف ہے کہ انہوں نے تین ضخیم اجزاء پر مشتمل ایک تفسیر لکھی تھی جس کو محمد بن ثور رحمہ اللہ (متوفیٰ190ھ) نے ان سے روایت کیا ہے۔ [1]
جب ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی زندگی کے ساتھ قرآن کریم کا کس قدر گہرا ربط وتعلّق ہے۔ مسلمان قرآن کریم سے شرعی احکام کا استنباط کرنے کے کس قدر دلدادہ تھے اور اس کی کس قدر شدید ضرورت بھی تھی تو یہ حقیقت نکھر کر سامنے آتی ہے کہ تفسیر نویسی میں فراء نحوی کو سبقت واوّلیت کا شرف حاصل نہیں ہوا، بلکہ اس سے قبل اس کام کی داغ بیل پڑ چکی تھی البتہ یقینی طور پر پہلے مفسر کے طور پر کسی کا تعیّن مشکل ہے ۔ عصر تدوین میں تفسیر پر جو کام ہوا تھا، اگر ہم تک پہنچ جاتا توبآسانی اس بات کا تعین ہو سکتا تھا کہ وہ سعادت مند شخص کون ہے جس نے اس انداز پر سب سے پہلے تفسیر قرآن پر مشتمل کتاب لکھی۔
تفسیر بالرّائے مذموم اور عقلی تفسیر
ان ادوار كے بعد تفسیر بالماثور کے ساتھ تفسیر بالرائے مذموم کی آمیزش شروع ہوگئی۔ تفسیر میں بکثرت تصانیف منظر عام پر آنے لگیں، اسناد میں اختصار کیا جانے لگا، روایت بالاسناد کی قید باقی نہ رہی۔ جو تفسیری اقوال مفسرین سلف سے منقول تھے، ان کی جانب منسوب کیے بغیر ان کو نقل وروایت کیا جانے لگا۔ جس کے نتیجے میں تفسیر میں وضع واختراع کا عمل دخل شروع ہوا۔ صحیح اور ضعیف اقوال میں فرق وامتیاز نہ رہا۔ ان کتبِ تفسیر کو پڑھنے والا اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتا کہ ان میں جو کچھ بھی ہے، صحیح ہے۔ چنانچہ متاخرین بلا جھجھک اسرائیلیات کو ایک حقیقت سمجھ کر نقل کرنے لگے۔ اس سے تفسیر میں موضوعات اور اسرائیلیات کا دروازہ چوپٹ کھل گیا۔ آہستہ آہستہ عقل ونقل میں باہم آمیزش واختلاط کا آغاز ہوا۔ ان مفسرین میں وہ بھی تھے کہ جن کا مقصدِ وحید مختلف اقوال وآثار کو جمع کرنا تھا۔ ان کی کیفیت یہ تھی کہ جب بھی انہیں کسی قول کا پتہ چلتا یا کوئی نئی بات سوجھتی تو فوراً اسے ضبطِ تحریر میں لے آتے۔ ان کے بعد آنے والے ان اقوال کو بلا سوچے سمجھے نقل کر دیتے اور مطلقاً اس جانب توجہ نہ دیتے کہ مفسرین صحابہ وتابعین نے اس ضمن میں کیا لکھا ہے؟ اس کا محرک یہ حسنِ ظن تھا کہ
[1] التّفسیر والمفسّرون: 1/80