کتاب: رُشدشمارہ 06 - صفحہ 48
کر لیے تھے۔ ۷۔ تفسیر کی کوئی جداگانہ منظّم صورت نہ تھی، بلکہ تفسیری اقوال احادیث کے ساتھ ملے جلے اور حدیث ہی کے فروع واجزاء خیال کیے جاتے تھے۔ عہدِ تابعین عظام رحمہم اللہ تفسیر قرآن کا پہلا مرحلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے زمانے سے شروع ہوا تھا جس نے علم تفسیر کی بنیادیں قائم کی تھیں۔ عہدِ صحابہ گزرنے کے بعد یہ مرحلہ مکمل ہوا اور عہدِ تابعین سے تفسیر قرآن کا نیا دَور شروع ہوا۔ تابعین عظام نے صحابہ کرام کے چشمۂ فیض سے اپنی پیاس بجھائی تھی۔ خیر القرون میں بھی ان کا شمار ہوتا ہے نیز ان کو عربی زبان کی معرفت اپنے بعد والوں سے کہیں زیادہ حاصل تھی۔ جس طرح صحابہ میں ایسے شہرۂ آفاق مفسرین موجود تھے جن کی جانب تفسیر قرآن کے سلسلہ میں رجوع کیا جاتا تھا، اسی طرح تابعین میں بھی ایسے فضلاء کی کمی نہ تھی جنہوں نے اپنے معاصرین کو قرآنِ کریم کے پیچیدہ اور حل طلب مقامات کے مطالب ومعانی سے روشناس کرایا۔ تابعین کے مصادرِ تفسیر اس دَور میں ماخذ تفسیر حسبِ ذیل تھے: 1۔قرآن کریم 2۔احادیث نبویہ 3۔اقوالِ صحابہ 4۔اہل کتاب اور ان کی کتب مقدسہ 5۔اجتہاد واستنباط [1] کتبِ تفسیر میں تابعین کے اقوال بکثرت مروی ہیں جو ان کے اجتہاد اور غور وفکر پر مبنی ہیں ہم یہ بیان کر چکے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے جو تفسیر منقول ہے وہ جملہ آیاتِ قرآن کو شامل نہیں بلکہ انہی آیات پر مشتمل ہے جن کے معنیٰ ومفہوم میں غموض وخفاء پایا جاتا ہے۔ عہدِ رسالت وصحابہ سے جوں جوں دوری ہوتی چلی گئی یہ غموض بڑھتا چلا گیا۔ جو تابعین تفسیر قرآن سے دلچسپی رکھتے تھے انہوں نے ذاتی محنت وکوشش سے اس کمی کو دور کرنا چاہا، چنانچہ آہستہ آہستہ انہوں نے تفسیرِ قرآن کو مکمل کر دیا۔ تفسیر نویسی کے سلسلہ میں تابعین نے لغتِ عرب ، عربوں کے اسالیبِ کلام اور ان واقعات سے بھی مدد لی جو نزولِ قرآن کے وقت در پیش تھے۔ [2] جوں جوں اسلامی فتوحات بڑھتی گئیں مسلمان مدینہ نبویہ سے نکل کر دور دراز علاقوں میں پھیل گئے۔ جہاں اسلام کی روشنی پھیلی وہاں مسلمانوں نے بھی سکونت اختیار کر لی۔ مسلمانوں میں ولاۃ، قضاۃ، امراء اور معلّم سبھی
[1] التفسیر والمفسّرون: 1/99۔ 100 [2] مقدمة في أصول التّفسير: ص61