کتاب: رُشدشمارہ 06 - صفحہ 47
۲۔ قوتِ اجتہاد واستنباط۔ ۳۔ رفاقتِ نبوی کی بناء پر اسبابِ نزول سے مکمل آگاہی۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اگرچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے زیادہ مستفید نہ ہو سکے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت ان کی عمر تیرہ سال کے لگ بھگ تھی۔ البتہ کبار صحابہ کی صحبت میں رہنے سے انہوں نے بڑی حد تک اس کی تلافی کر لی تھی۔ اپنے بارے میں بیان کرتے ہوئے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ’’وجدت عامّة حديث رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عند الأنصار، فإن كنت لآتي الرجل فأجده نائمًا، لو شئتُ أن يُوقَظ لي لأُوقظ، فأجلس على بابه تسفي على وجهي الريح حتى يستيقظ متى ما استيقظ، وأسأله عما أريد، ثم أنصرف. ‘‘[1] ’’ مجھے اکثر احادیثِ نبویہ انصار سے ملیں۔ میری حالت یہ تھی کہ میں استفادہ کے لئے کسی شخص کے یہاں جاتا اور اسے محوِ خواب پاتا۔ اگر میں چاہتا تو اسے بیدار کر دیتا مگر میں یوں نہیں کرتا تھا۔ چنانچہ میں اس کے دروازہ پر بیٹھا رہتا۔ میرا چہرہ گرد وغبار سے اٹ جاتا۔ یہاں تک کہ وہ خود ہی جاگتا اور مجھے جو کچھ اس سے دریافت کرنا ہوتا تھا، پوچھتا اور واپس لوٹ آتا۔‘‘ کثرتِ روایات کے اعتبار سے ان چاروں مشہور صحابہ کرام کی ترتیب یوں ہے:ابن عباس، ابن مسعود، علی اور اُبی عہدِ صحابہ کی تفسیری خصوصیات اس دَور کے تفسیری خدو خال حسب ِ ذیل ہیں: ۱۔ مکمل قرآن کی تفسیر نہیں کی گئی، بلکہ جس قدر دقت وغموض پایا جاتا تھا اس پر ہی غور کیا جاتا تھا۔ ۲۔ تفسیر میں صحابہ کرام کے یہاں بہت کم اختلاف تھا۔ ۳۔ صحابہ کرام قرآن کریم کے اجمالی معانی پر اکتفاء کرتے تھے اور تفصیلات کی طلب وتلاش کو ضروری خیال نہیں کرتے تھے۔ ۴۔ مختصر ترین الفاظ میں لغوی معنیٰ کی تشریح کرنے کو کافی سمجھتے تھے۔ ۵۔ قرآنی آیات سے فقہی احکام کا استنباط شاذ ونادر کرتے تھے، اس لئے کہ ان میں ابھی تک مذہبی وحزبی اختلافات کا ظہور نہیں ہوا تھا کہ اپنے موقف کی تائید وحمایت کیلئے آیات سے استدلال کریں۔ ۶۔ اس دَور میں تفسیر کی تدوین نہیں ہوئی، البتہ بعض صحابہ نے آسانی کیلئے اپنے مصاحف میں تفسیری الفاظ تحریر
[1] ابن سعد، أبو عبد اللّٰه محمد بن سعد، الطّبقات الكبرى: 2/368، دار الكتب العلمية، بيروت، الطبعة الأولى، 1990م